سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے ایک محترم ہیں، جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کو طلاق دی، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ میں سعدیہ بنت عبد القیوم کو اپنے عقد سے فارغ کر کے ایک طلاق دیتا ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں کتنی طلاقیں واقع ہوئیں، اور طلاق کی کونسی قسم واقع ہوئی؟
سائل کی مراد لفظ فارغ سے طلاق نہیں ہے، جسکا وہ حلفیہ اقرار بھی کرتا ہے۔
جواب: اگر سوال میں بیان کی گئی تفصیل واقعی درست ہے، تو اس جملے "اپنے عقد سے فارغ کر کے ایک طلاق دیتا ہوں" سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ طلاق دینے کے وقت سے عورت کو تین مرتبہ ماہواری آنے تک اس کی عدت ہے، اس عدت کے دوران شوہر اگر چاہے، تو وہ اپنی طلاق سے رجوع کرسکتا ہے۔
رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے بیوی سے یہ کہہ دے کہ "میں اپنی طلاق سے رجوع کرتا ہوں"، اس کے بعد وہ دونوں حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں، البتہ آئندہ شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہو گا، لہذا شخص مذکور کو آئندہ طلاق کے الفاظ استعمال کرنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ بقیہ دو طلاقوں کے بعد، بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایۃ: (باب الرجعۃ، 394/2، ط: شرکۃ علمیۃ ملتان)
واذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ أو تطلیقتین فلہ أن یراجعھا فی عدتھا
رد المحتار: (399/3)
"والمستحب أن یراجعھا بالقول".
الفتاوى الھندیۃ: (الباب السادس في الرجعة و فيما تحل به المطلقة، 468/1)
"وما يتصل به الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين۔۔۔ وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة ۔۔۔۔كل ما تثبت به حرمة المصاهرة تثبت به الرجعة كذا في التتارخانية".
و فیھا ایضا: (الباب السادس في الرجعة و فيما تحل به المطلقة، 468/1)
"فالسنی أن یراجعھا بالقول".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی