سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کی زوجات کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے، لیکن آپ ﷺ کو مومنین کا باپ کیوں نہیں کہا جاتا ہے؟
جواب: جناب رسول اللہ ﷺ اگرچہ کسی بھی مسلمان کے نسبی اور حقیقی طور پر باپ نہیں ہیں، لیکن آپ ﷺ روحانی طور پر سب مسلمانوں کے باپ ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات تمام مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے: ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَٰتُهُمْ ۗ(سورہ احزاب، آیت نمبر:6)
ترجمہ:ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔
اس آیت میں ازواج مطہرات کو صراحتاً امت کی مائیں اور رسول اللہ ﷺ کو اشارةً امت کے روحانی باپ قرار دیا گیا ہے۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کا امہات المؤمنین ہونا آپ ﷺ کی وجہ سے ہے، اگر آپ ﷺ امت کے لیے باپ کی طرح نہ ہوتے تو آپ ﷺ کی ازواج ماؤں کی طرح نہ ہوتیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سورہ احزاب کی مذکورہ بالا آیت اس طرح پڑھتے تھے:النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم وهو اب لهم وازواجه امهاتهمترجمہ: ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں اور وہ ان کے لیے باپ ہے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔
حضرت ابی ابن کعب سے مروی ایک قراءت میں "وھو اب لھمیعنی"اور وہ ان کے لیے باپ ہے" کے الفاظ ہیں۔
اس پر ایک اشکال ہوسکتا ہے کہ اسی سورہ احزاب کی آیت’’ماکان محمد ابااحدمن رجالکم۔۔۔(سورہ احزاب :40) سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول للہ ﷺ کسی مسلمان مرد کے باپ نہیں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں حقیقی اور نسبی والد ہونے کی نفی کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کسی مسلمان مرد کے حقیقی اور نسبی والد نہیں ہیں اور ازواج مطہرات کا امت کی مائیں ہونا ادب و احترام کے اعتبار سے ہے، باقی امور مثلاً: پردہ، میراث وغیرہ میں وہ اجنبی عورتوں کی طرح ہیں، حقیقی اور نسبی ماں کی طرح نہیں ہیں۔
خلاصہ کلام :آپ ﷺ روحانی طور پر سب مسلمانوں کے باپ ہیں، جس طرح آپ ﷺ کی ازواج مطہرات تمام مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں اور اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے:عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما انا لكم بمنزلة الوالد، اعلمكم(سنن ابی داؤد،حدیث نمبر:8) ترجمہ:میں تمہارے حق میں باپ کی طرح ہوں، اسی بنا پر میں تم کو دین وادب کی تعلیم دیتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المستدرک للحاکم: (رقم الحدیث: 3556، 450/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن عطاء، عن ابن عباس رضي الله عنهما، «أنه كان يقرأ هذه الآية » النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وهو أب لهم وأزواجه أمهاتهم «» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "
تفسیر ابن کثیر: (340/6، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وقال تعالى: وأزواجه أمهاتهم أي في الحرمة والاحترام، والتوقير والإكرام والإعظام، ولكن لا تجوز الخلوة بهن ولا ينتشر التحريم إلى بناتهن وأخواتهن بالإجماع
و فیہ ایضاً: (341/6، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وقد روي عن أبي كعب وابن عباس رضي الله عنهما أنهما قرءا النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم وهو أب لهم. وروي نحو هذا عن معاوية ومجاهد وعكرمة والحسن، وهو أحد الوجهين في مذهب الشافعي رضي الله عنه، حكاه البغوي وغيره، واستأنسوا عليه بالحديث الذي رواه أبو داود رحمه الله: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا ابن المبارك عن محمد بن عجلان عن القعقاع بن حكيم، عن أبي صالح عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «إنما أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم، فإذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يستدبرها، ولا يستطب بيمينه» . وكان يأمر بثلاثة أحجار وينهى عن الروث والرمة. وأخرجه النسائي وابن ماجه من حديث ابن عجلان، والوجه الثاني أنه لا يقال ذلك، واحتجوا بقوله تعالى: ما كان محمد أبا أحد من رجالكم.
تفسیر القرطبی: (125/14، ط: دار الكتب المصرية)
قال قوم: لا يجوز أن يسمى النبي صلى الله عليه وسلم أبا لقوله تعالى:" ما كان محمد أبا أحد من رجالكم" [الأحزاب: 40]. ولكن يقال: مثل الأب للمؤمنين، كما قال: (إنما أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم ... ) الحديث. خرجه أبو داود. والصحيح أنه يجوز أن يقال: إنه أب للمؤمنين، أي في الحرمة، وقوله تعالى:" ما كان محمد أبا أحد من رجالكم" [الأحزاب: 40] أي في النسب. وسيأتي. وقرأ ابن عباس:" من أنفسهم وهو أب لهم وأزواجه". وسمع عمر هذه القراءة فأنكرها وقال: حكمها يا غلام؟ فقال: إنها في مصحف أبي، فذهب إليه فسأله فقال له أبي: إنه كان يلهيني القرآن ويلهيك الصفق بالأسواق؟ وأغلظ لعمر.
منھاج السنۃ لابن التیمیۃ: (238/5، ط: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)
فإن نساءه إنما كن أمهات المؤمنين تبعا له، فلولا أنه كالأب لم يكن نساؤه كالأمهات.
تيسير الكريم الرحمن لعبد الرحمن السعدي: (ص: 659، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
وهو صلى الله عليه وسلم، أب للمؤمنين، كما في قراءة بعض الصحابة، يربيهم كما يربي الوالد أولاده.
فترتب على هذه الأبوة، أن كان نساؤه أمهاتهم، أي: في الحرمة والاحترام، والإكرام، لا في الخلوة والمحرمية
دفع إيهام الاضطراب عن آيات الكتاب لمحمد الأمين الشنقيطي: (ص: 186، ط: مكتبة ابن تيمية)
قوله تعالى: وأزواجه أمهاتهم.
هذه الآية الكريمة تدل بدلالة الالتزام على أنه صلى الله عليه وسلم أب لهم، لأن أمومة أزواجه لهم تستلزم أبوته صلى الله عليه وسلم لهم.
وهذا المدلول عليه بدلالة الالتزام مصرح به في قراءة أبي بن كعب رضي الله عنه لأنه يقرؤها: «وأزواجه أمهاتهم وهو أب لهم» . وهذه القراءة مروية أيضا عن ابن عباس.
وقد جاءت آية أخرى تصرح بخلاف هذا المدلول عليه بدلالة الالتزام والقراءة الشاذة، وهي قوله تعالى: ما كان محمد أبا أحد من رجالكم الآية [33 \ 40] .
والجواب ظاهر، وهو أن الأبوة المثبتة دينية والأبوة المنفية طينية
معارف القرآن لمفتی شفیع العثمانی: (86/7، ط: مکتبۃ معارف القرآن)
معارف القرآن للشیخ ادریس الکاندھلوی: (226/6، ط: مکتبۃ المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی