سوال:
مفتی صاحب! کیا عشاء کی دو سنتیں جو فرائض کے بعد ہوتی ہیں، وہ تراویح اور وتر کے بعد پڑھ سکتے ہیں؟ ایک شخص نے تراویح کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ایسا کیا، اگر یہ عمل ٹھیک نہیں ہے تو اب اس کو کیا کرنا چاہئے؟
جزاک اللہ
جواب: عشاء کی سنت بعدیہ (فرض کے بعد پڑھی جانے والی سنتیں) فرض نماز کے فوراً بعد وتر سے پہلے پڑھنا چاہیے، اگر کسی نے وتر کے بعد پڑھ لیں، تو سنتیں ادا ہوجائیں گی، البتہ ایسا کرنا مکروہ (تنزیہی) ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (447/2، ط: زکریا)
ویکرہ تأخیر السنة إلا بقدر اللہم أنت السلام إلخ قال الحلوانی: لا بأس بالفصل بالأوراد واختارہ الکمال. قال الحلبی: إن أرید بالکراہة التنزیہیة ارتفع الخلاف قلت: وفی حفظی حملہ علی القلیلة؛ ...(قولہ إلا بقدر اللہم إلخ) لما رواہ مسلم والترمذی عن عائشة قالت کان رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - لا یقعد إلا بمقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والإکرام ، وأما ما ورد من الأحادیث فی الأذکار عقیب الصلاة فلا دلالة فیہ علی الإتیان بہا قبل السنة، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنة من لواحق الفریضة وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیة عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضة. وقول عائشة بمقدار لا یفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ، بل کان یقعد بقدر ما یسعہ ونحوہ من القول تقریباإلخ
فتاویٰ رحیمیہ: (90/6، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی