سوال:
مفتی صاحب! بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کسی سے عمر بھر کی نمازیں قضا ہوگئی ہوں، تو رمضان المبارک کے آخری جمعے میں نماز جمعہ کے بعد چار رکعت یا بارہ رکعت قضابکی نیت سے پڑھے تو قضا نمازوں سے اس کا ذمہ بری ہو جاتا ہے اور اسے ”قضائے عمری“ کہا جاتا ہے، کیا واقعی اس طرح قضا کرنے سے زندگی بھر کی قضا نمازیں ادا ہوجاتی ہیں؟
الجواب حامدا و مصلیا...
جواب: واضح رہے کہ مروجہ قضائے عمری بدعت ہے، نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے اور نہ حدیث میں اس بارے میں کوئی روایت ہے، نہ صحابہ کے آثار ہیں ،نہ ہی تابعین ،تبع تابعین اور بزرگان دین کے عمل میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ ہے اور ائمہ ار بعہ کے مذہب کی معتبر کتابوں میں بھی اس کا کوئی ذکر اور نام و نشان نہیں ہے۔
اس بارے میں جو روایت پیش کی جاتی ہے، وہ موضوع (من گھڑت )ہے۔
ملا علی قاریؒ فر ما تے ہیں:
حدیث من قضیٰ صلٰوۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان جابرًا لکل صلٰوۃٍ فائتۃٍ فی عمرہٖ الٰی سبعین سنۃً باطل قطعًا لانہٗ مناقضِ للاجماع علٰی ان شیئًا من العبادات لایقوم مقام فائتۃٍ سنواتٍ اھ۔
(الموضوعات الکبیر:ص:356، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ:
یہ روایت کہ "جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں ایک فرض نماز قضاء پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں، ان سب کی تلافی ہو جاتی ہے" یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے، اس لئے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے، اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی ہے۔
علا مہ قاضی شوکانیؒ فرماتے ہیں :
حديث: "من صلى في آخر جمعة من رمضان الخمس الصلوات المفروضة في اليوم والليلة قضت عنه ما أخل به من صلاة سنته.هذا: موضوع لا إشكال فيه ۔
(الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،ص:54،ط:دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ:
یہ حدیث کہ "جو شخص رمضان کے آخری جمعے میں دن رات کی پانچ فرض نمازیں پڑھ لے، ان سے اس کے سال بھر کی جتنی نمازوں میں خلل رہا ہو، ان سب کی قضا ہو جاتی ہے" کسی شک کے بغیر موضوع ہے۔
کفایت المفتی میں ہے :
یہ قضائے عمری کی نماز بے اصل ہے اور جماعت سے پڑھنا ناجائز ہے۔
(کفایت المفتی،232/4،ط:ادارۃ الفاروق)
مولانا احمد رضاخان بریلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ (قضائے عمری) ایجاد کر لیا گیا، یہ بدترین بدعت ہے، اس بارے میں جو روایت ہے، وہ موضوع (گھڑی ہوئی) ہے، یہ عمل سخت ممنوع ہے، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود (اور) اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
(فتاوی رضویہ،155/8،ط: رضا فأونڈیشن،لاہور)
مشہور بریلوی عالم مفتی امجد علی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قضائے عمری کہ شبِ قدر یا اخیر جمعۂ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اسی ایک نماز سے ادا ہوگئیں، یہ باطل محض ہے۔
(بہارشریعت،708/4،ط: مکتبۃ المدینہ)
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مروجہ قضائے عمری بے اصل اور بدعت ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الموضوعات الکبری: (ص: 356، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
حدیث من قضیٰ صلٰوۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان جابرًا لکل صلٰوۃٍ فائتۃٍ فی عمرہٖ الٰی سبعین سنۃً باطل قطعًا لانہٗ مناقضِ للاجماع علٰی ان شیئًا من العبادات لایقوم مقام فائتۃٍ سنواتٍ اھ۔
الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی: (ص: 54، ط: دار الکتب العلمیۃ)
حديث: "من صلى في آخر جمعة من رمضان الخمس الصلوات المفروضة في اليوم والليلة قضت عنه ما أخل به من صلاة سنته.هذا: موضوع لا إشكال فيه ۔
الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لعبد الحي اللكنوي: (ص: 85، ط: دار الکتب العلمیۃ)
من صلى في آخر جمعة من رمضان الخمس الصلوات المفروضة في اليوم والليلة قضت عنه ما أخل به من صلاة سنته.
هذا: موضوع لا إشكال فيه ولم أجده في شيء من الكتب التي جمع مصنفوها فيها الأحاديث الموضوعة ولكنه اشتهر عند جماعة من المتفقهة بمدينة صنعاء في عصرنا هذا وصار كثير منهم يفعلون ذلك ولا أدري من وضعه لهم.
فقبح الله الكذابين.
وقال العلامة الدهلوي في رسالته العجالة النافعة عند ذكر قرائن الوضع الخامس أن يكون مخالفا لمقتضى العقل وتكذبه القواعد الشرعية مثل القضاء العمري ونحو ذلك انتهى معربا
قلت وقد ألفت لإثبات وضع هذا الحديث الذي يوجد في كتب الأوراد والوظائف بألفاظ مختلفة مختصرة ومطولة بالدلائل العقلية والنقلية رسالة مسماة بردع الأخوان عن محدثات آخر جمعة رمضان۔
فتاوی محمودیۃ: (296/8، ط: ادارۃ الفاروق)
آپ کے مسائل اور ان کا حل: (618/4، ط: مکتبہ لدھیانوی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی