سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنا کاروبار اس نیت سے اپنے بیٹے کے حوالہ کردیا کہ وہ اس کے بعد گھر کا خرچہ چلائے گا، لیکن کچھ عرصہ بعد وہ لڑکا فوت ہوگیا، معلوم یہ کرنا ہے کہ اب یہ کاروبار باپ کی ملکیت ہی شمار ہوگا یا بیٹے کے ترکہ میں تقسیم ہوگا؟
جواب: اگر باپ نے اپنا کاروبار بیٹے کو گھر چلانے کے لیے دیا تھا، اور اس کاروبار کا باقاعدہ طور پر مالک نہیں بنایا تھا، تو بیٹے کی زندگی اور وفات کے بعد بھی اس کاروبار کا مالک باپ ہی ہے، البتہ جو چیزیں باپ نے بیٹے کو مالکانہ طور پر قبضہ میں دیدی تھیں، اس کا مالک چونکہ بیٹا تھا، لہذا وہ چیزیں بیٹے کے ترکہ میں شمار ہونگی، اور شریعت کے قانونِ وراثت کے مطابق بیٹے کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہونگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادۃ: 1398، 741/2)
"إذا عمل رجل في صنعۃ ہو وابنہ الذي في عیالہ فجمیع الکسب لذلک الرجل، وولدہ یعد معینا لہ، فیہ قیدان احترازیان کما تشعر عبارۃ المتن، الأول: أن یکون الابن في عیال الأب، الثاني: أن یعملا معا في صنعۃ واحدۃ إذ لو کان لکل منہما صنعۃ یعمل فیہا وحدہ فربحہ لہ".
تنقيح الفتاوى الحامدية: (17/2، ط: دار المعرفۃ)
"في الفتاوى الخيرية: سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته؟ أجاب: هي للابن، تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه . وأما قول علمائنا "أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله" فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط: منها:
(١) اتحاد الصنعة
(٢) وعدم مال سابق لهما
(٣) وكون الابن في عيال أبيه، فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب، وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم " لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع"، فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اه. ......
وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله: إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه، وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه، وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه، وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه، وإن لم يكونوا بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال، وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثاً بيقين، والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته.
امداد السائلین: (224/5- 225، ط: ادارۃ المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی