سوال:
مفتی صاحب! سنا ہے کہ وتر کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے، تو کیا وتر کے بعد تہجد وغیرہ پڑھنا صحیح نہیں ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ وتر کی نماز کے بعدتہجد کی نماز پڑھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، لہذا اگر کوئی شخص وتر پڑھ کر سوگیا، اور رات کو بیدار ہونے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔
وتر کے بعد نوافل پڑھنے سے منع کرنے والےحضرات کی دلیل اور اس کا جواب:
جو حضرات وتر کے بعد تہجد پڑھنے سے منع کرتے ہیں، وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ بخاری شریف میں ہے:عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا. (صحیح البخاری، حدیث نمبر:998، 25/2، ط: دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:حضرت عبدللہ سے راویت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم رات میں اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے، لہذا یہ حضرات فرماتے ہیں کہ وتر کے بعد کوئی نفل پڑھنا جائز نہیں ہے۔
مانعینِ نفل کی دلیل کا جواب:
اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ "رات کی آخری نماز وترکو بناؤ" محدثین کرام ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں امر استحباب کے لیے ہے۔
علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں: وهذا الأمر للاستحباب، فيستحب للرجل أن يوتر آخر الليل إن وثق بالانتباه، وان يجعله آخر جميع صلاته.(شرح أبی داؤد للعینی، 350/5، ط:مکتبۃ الرشد)
ترجمہ : اس امر (اجعلوا آخر صلوتکم باللیل وتر) میں امر استحاب کے لیے ہے، لہذا اگر کسی کو رات سوکر اٹھنے کا اعتماد اور بھروسہ ہو، وہ وتر کو رات کے آخری حصے میں پڑھے اور اس (وتر) کو اپنی آخری نماز بنائے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بہتر اور افضل یہ ہے کہ رات کو وتر کی نماز تہجد کے بعد آخر میں پڑھی جائے، لیکن یہ حکم اس کے لیے ہے، جو رات کو سوکر اٹھ سکتا ہو، اور اگر کوئی سوکر نہیں اٹھ سکتا، تو وہ وتر پڑھ کر سو جائے۔
اور یہ بات درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے:
۱)عن جابر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «أيكم خاف أن لا يقوم من آخر الليل فليوتر، ثم ليرقد، ومن وثق بقيام من الليل فليوتر من آخره، فإن قراءة آخر الليل محضورة، وذلك أفضل»(حدیث نمبر:755، 520/1، ط:دارإحیاءالتراث العربی)
ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جس آدمی کو اس بات کا ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکے گا، تو اسے چاہیے کہ وتر پڑھ لے، پھر سو جائے اور جس آدمی کو رات کو اٹھنے کا یقین ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصہ میں قرأت کرنا ایسا ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔
۲)عن أبي قتادة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لأبي بكر: «متى توتر؟»، قال: أوتر من أول الليل، وقال لعمر: «متى توتر؟»، قال: آخر الليل، فقال لأبي بكر: «أخذ هذا بالحزم»، وقال لعمر: «أخذ هذا بالقوة»(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر:1434، 66/2، ط:المکتبۃ العصریۃ)
ترجمہ:حضرت ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے پوچھا، تم وتر کب پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا: شروع رات میں، پھر حضرت عمر سے پوچھا، تم وتر کب پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا: اخیر رات میں، پھر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا: تم نے احتیاط کا پہلو اختیار کیا اور حضرت عمر سے فرمایا: تم نے عزیمت کو اختیار کیا۔
۳)عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: أوصاني خليلي صلى الله عليه وسلم بثلاث: «صيام ثلاثة أيام من كل شهر، وركعتي الضحى، وأن أوتر قبل أن أنام»
(بخاری، حدیث نمبر:1981، 41/3، ط: دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے میرے خلیل (جناب رسول اللہ ﷺ) نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، میں انہیں مرتے دم تک نہ چھوڑوں گا، ہر مہینہ میں تین روزے رکھنا، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔
ان روایات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وتر کو رات کے آخری حصے میں اٹھ کر پڑھنا افضل ہے، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ رات کو وتر پڑھ کر سویا جائے، تاکہ رات کو سوتے رہ جانے کی وجہ سے وتر کی نماز قضا نہ ہوجائے۔
وتر پڑھنے کے بعد رات کو اٹھ کر نوافل پڑھنے کا ثبوت:
وتر پڑھنے کے بعد رات کو اٹھ کر نوافل پڑھنا کئی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
۱) عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعد الوتر ركعتين.(سنن ترمذی،حدیث نمبر:471، 593/1، ط: دارالغرب الإسلامی)
ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
سنن ابن ماجہ اور دوسری احادیث کی کتب میں "وھو جالس" الفاظ کا اضافہ ہے، یعنی آپ ﷺ بیٹھ کر دو رکعات پڑھتے تھے۔
علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ دو رکعات نماز وتر کے بعد نفل کے جواز کو بیان کرنے کے لیے ادا فرمائی۔
۲)عن ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن هذا السهر جهد وثقل، فإذا أوتر أحدكم، فليركع ركعتين، فإن قام من الليل، وإلا كانتا له» ويقال: هذا السفر وأنا أقول: السهر. (سنن دارمی،حدیث نمبر:1635، 993/2، ط: دار المغني)
ترجمہ:حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (تہجد کے لئے) رات کو بیدار ہونا مشکل اور گراں ہوتا ہے، اس لئے جب تم میں سے کوئی آدمی (رات کے آخری حصے میں جاگنے) کا یقین نہ رکھتا ہو اور سونے سے پہلے یعنی عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھے، تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھ لے، اگر وہ نماز تہجد کے لئے رات کو اٹھ گیا تو بہتر ہے اور اگر نہ اٹھ سکا، تو پھر دو رکعتیں کافی ہوں گی (یعنی ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے کی وجہ سے اسے نماز تہجد کا ثواب مل جائے گا)
۳)عن أبي مرة أنه سأل أبا هريرة : كيف كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يوتر ؟ قال: فسكت ثم سأله فسكت ثم سأله فقال : إن شئت أخبرتك كيف أصنع أنا قال : أخبرني قال : إذا صليت العشاء صليت بعدها خمس ركعات ثم أنام فإن قمت من الليل صليت مثنى مثنى فإن أصبحت أصبحت على وتر(مؤطاامام محمد،حدیث نمبر:250، 5/2،ط:دارالقلم)
ترجمہ:حضرت أبومرہ نے حضرت أبوھریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ جناب رسول اللہ ﷺ کس طرح وتر پڑھتے تھے؟ تو حضرت أبوھریرہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے، پھر أبو مرہ نے ان سے سوال کیا، تو حضرت أبوھریرہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے، پھر أبو مرہ نے سوال کیا تو حضرت أبوھریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو یہ بتادیتا ہوں کہ میں کیسے عمل کرتا ہوں؟ أبو مرہ نے کہا: آپ بتادیجیے۔
حضرت أبوھریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جب عشاء کی نماز پڑھ لیتا ہوں، تو میں اس کے بعد پانچ رکعات پڑھ لیتا ہوں، پھر سو جاتا ہوں، پھر اگر میں رات میں اٹھ جاتا ہوں، تو دو دو رکعات پڑھتا ہوں اور اگر میں صبح کرلیتا ہوں ( رات نہیں اٹھ پاتا)تو میں وتر پر صبح کرلیتا ہوں۔
۴) عن أبي عمرو الندبى قال سمعت رافع بن خديج يسأل عن الوتر فقال أما أنا فإني أوتر من أول الليل فإن رزقت شيئا من آخره صليت ركعتين ركعتين حتى أصبح أو قال حتى يدركني الصبح(مصنف عبدالرزاق،حدیث نمبر:4620، 15/3، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ: حضرت ابو عمرو دولابی سے روایت ہے کہ میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، جب ان سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا: میں رات کے شروع میں وتر پڑھ لیتا ہوں، پھر اگر مجھے رات کے آخری حصے میں توفیق ہوجائے، تو میں صبح تک دو دو رکعات نفل پڑھتا ہوں۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وتر کی نماز کے بعد پورے سال (رمضان ہو یا غیر رمضان ) تہجد کی نماز جائز ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، البتہ غیر رمضان میں جس کو رات سوکر اٹھنے کا یقین ہو، اس کےلیے افضل یہی ہے کہ وہ تہجد کے بعد وتر پڑھے اور وتر کو اپنی آخری نماز بنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجۃ: (رقم الحدیث: 1195، 3669/2، ط: دار الجیل)
عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان يصلي بعد الوتر ركعتين خفيفتين، وهو جالس»
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 26553، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
المعجم الأوسط للطبرانی: (رقم الحدیث: 7094، ط: دار الحرمین)
السنن الکبری للبیھقی: (رقم الحدیث: 4822، ط: دار الکتب العلمیۃ)
سنن الدار قطنی: (رقم الحدیث: 1682، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 471، 593/1، ط: دار الغرب الإسلامی)
واختلف أهل العلم في الذي يوتر من أول الليل، ثم يقوم من آخره.
فرأى بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم: نقض الوتر، وقالوا: يضيف إليها ركعة ويصلي ما بدا له، ثم يوتر في آخر صلاته، لأنه لا وتران في ليلة.
وهو الذي ذهب إليه إسحاق، وقال بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا أوتر من أول الليل، ثم نام، ثم قام من آخر الليل، فإنه يصلي ما بدا له ولا ينقض وتره، ويدع وتره على ما كان.
وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن أنس، وابن المبارك، وأحمد.
وهذا أصح، لأنه قد روي من غير وجه أن النبي صلى الله عليه وسلم قد صلى بعد الوتر.
حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا حماد بن مسعدة، عن ميمون بن موسى المرئي، عن الحسن، عن أمه، عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعد الوتر ركعتين.
وقد روي نحو هذا، عن أبي أمامة، وعائشة، وغير واحد عن النبي صلى الله عليه وسلم.
شرح النووی: (21/6، ط: دار إحیاء التراث العربی)
الصواب أن هاتين الركعتين فعلهما صلى الله عليه وسلم بعد الوتر جالسا لبيان جواز الصلاة بعد الوتر
مرقاۃ المفاتیح: (943/3، ط: دار الفکر)
(وعن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (" اجعلوا ") : أمر ندب (" آخر صلاتكم بالليل وترا ")
شرح أبی داؤد للعینی: (350/5، ط: مکتبۃ الرشد)
وهذا الأمر للاستحباب , فيستحب للرجل أن يوتر آخر الليل إن وثق بالانتباه، وان يجعله آخر جميع صلاته. وأما ما روي عنه- عليه السلام- أنه كان يداوم على ركعتين بعد الوتر، ويجعلهما آخر صلاة الليل، فالمراد منه: بيان الجواز۔
فتح الباری: (481/2، ط: دار المعرفۃ)
وقد اختلف السلف في ذلك في موضعين أحدهما في مشروعية ركعتين بعد الوتر عن جلوس والثاني فيمن أوتر ثم أراد أن يتنفل في الليل هل يكتفي بوتره الأول وليتنفل ما شاء أو يشفع وتره بركعة ثم يتنفل ثم إذا فعل ذلك هل يحتاج إلى وتر آخر أو لا فأما الأول فوقع عند مسلم من طريق أبي سلمة عن عائشة أنه صلى الله عليه وسلم كان يصلي ركعتين بعد الوتر وهو جالس وقد ذهب إليه بعض أهل العلم وجعلوا الأمر في[998] قوله اجعلوا آخر صلاتكم من الليل وترا مختصا بمن أوتر آخر الليل وأجاب من لم يقل بذلك بأن الركعتين المذكورتين هما ركعتا الفجر وحمله النووي على أنه صلى الله عليه وسلم فعله لبيان جواز التنفل بعد الوتر وجواز التنفل جالسا وأما الثاني فذهب الأكثر إلى أنه يصلي شفعا ما أراد ولا ينقض وتره عملا بقوله صلى الله عليه وسلم لا وتران في ليلة وهو حديث حسن أخرجه النسائي وبن خزيمة وغيرهما من حديث طلق بن علي
الأوسط لابن المنذر: (203/5، ط: دار الفلاح)
وقد اختلف أهل العلم في الصلاة بعد الوتر فكان قيس بن عباد يقول: «أقرأ وأنا جالس أحب إلي من أن أصلي بعدما أوتر»، وكان مالك بن أنس لا يعرف الركعتين بعد الوتر، وقال الأوزاعي: «إن شاء ركعهما»، وقال أحمد بن حنبل: «أرجو إن فعله إنسان لا يضيق عليه»، وقال أحمد: «لا أفعله».
قال أبو بكر: الصلاة في كل وقت جائزة إلا وقتا نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فيه، والأوقات التي نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فيها وقت طلوع الشمس، ووقت الزوال، ووقت غروب الشمس، والصلاة في سائر الأوقات طلق مباح، ليس لأحد أن يمنع فيها إلا بحجة، ولا حجة مع من كره الصلاة بعد الوتر، فدل فعله هذا على أن قوله: «اجعلوا آخر صلاتكم وترا» على الاختيار لا على الإيجاب، فنحن نستحب أن يجعل المرء آخر صلاته وترا، ولا نكره الصلاة بعد الوتر، وقائل هذا قائل بالخبرين جميعا
البحر الرائق: (262/1، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله: والوتر إلى آخر الليل لمن يثق بالانتباه) أي وندب تأخيره لرواية الصحيحين «اجعلوا آخر صلاتكم وترا» والأمر للندب لرواية الترمذي «من خشي منكم أن لا يستيقظ من آخر الليل فليوتر أوله ومن طمع منكم أن يوتر في آخر الليل فليوتر من آخر الليل فإن قراءة القرآن في آخر الليل محضورة» وهي أفضل وهو دليل مفهوم قوله لمن يثق به وإذا أوتر قبل النوم، ثم استيقظ وصلى ما كتب له لا كراهة فيه ولا يعيد الوتر ولزمه ترك الأفضل المفاد بحديث الصحيحين
رد المحتار: (369/1، ط: دار الفکر)
(قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «من خاف أن لا يوتر من آخر الليل فليوتر أوله ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ) رواه مسلم والترمذي وغيرهما وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين «اجعلوا آخر صلاتكم وترا» والأمر للندب بدليل ما قبله بحر.
(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولا يعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين إمداد.
ولا يقال: إن من لا يثق بالانتباه فالتعجيل في حقه أفضل كما في الخانية، فإذا انتبه بعدما عجل يتنفل ولا تفوته الأفضلية؛ لأنا نقول: المراد بالأفضلية في الحديث السابق هي المترتبة على ختم الصلاة بالوتر وقد فاتت، والتي حصلها هي أفضلية التعجيل عند خوف الفوات على التأخير فافهم وتأمل.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی