سوال:
السلام علیکم، محترم ! مجھے ایک مسئلہ کی بابت دریافت کرنا ہے، 27جولائی 2017 کو میرا نکاح ہوا، جو کہ گھر کے قریب مسجد میں ہوا تھا اور اس نکاح میں دو گواہ لڑکی کی طرف سے موجود تھے، جن کو لڑکی نے خود اپنا وکیل مقرر کیا تھا، اس نکاح میں اس کے گھر والے شامل نہیں تھے، نہ ان کے علم میں تھا اور نہ ہی میرے گھر والوں کو معلوم تھا، یہ نکاح مخفی تھا، اس دوران لڑکی اپنے گھر پر ہی رہی، جب ہمارے گھر والوں کو معلوم ہوا تو دونوں کے گھر والوں کی رضامندی اور خاندان کی شمولیت سے پورے رسم و رواج کے ساتھ 13 ستمبر 2019 کو رخصتی عمل میں لائی گئی۔
الحمدللہ ! اب میری ایک بیٹی ہے، میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ میرے نکاح میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولی کی عدم موجودگی میں کیے گئے نکاح کے باطل ہونے والی حدیث صادق آئے گی یا نہیں اور ہمارے نکاح کی کیا شرعی حیثیت ہے، آیا یہ نکاح باطل ہے؟ اس سلسلے میں رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی بالغ ہوں اور باقاعدہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں اور لڑکا اس لڑکی کا کفو ( یعنی دینداری، مال، نسب اور پیشہ میں لڑکی کا ہم پلہ ) بھی ہو، تو شرعا یہ نکاح صحیح اور درست ہوگا اور اگر عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرے، تو شرعا ایسا نکاح بھی منعقد ہو جائے گا، لیکن ولی کو بذریعہ عدالت اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک فسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا۔
یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ شریعت نے جہاں ایک عاقلہ بالغہ مسلمان کو اپنے نکاح کرنے میں یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ولی اور سرپرست کی رضامندی کے بغیر کفو میں نکاح کر سکتی ہے، وہیں شریعت نے اس نکاح سے براہ راست متاثر ہونے والے اہم ترین افراد (ولى اور سرپرست) کی رضامندی کے بغیر، غير كفو یعنی بے جوڑ نکاح کرنے سے منع بھی فرمایا ہے، تاکہ اس عقد نکاح کے نتیجہ میں خاندانوں میں تلخیاں پیدا نہ ہوں، چنانچہ ولی کے علم میں لائے بغیر اس طرح مخفی طور پر نکاح کرنا شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے، اسی نا پسندیدگی کا اظہار آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے:
أخبرنا ابن خزيمة حدثنا عبد الأعلى بن واصل بن عبد الأعلى حدثنا يعلى بن عبيد عن يحيى بن سعيد الأنصاري عن ابن جريج عن سليمان بن موسى عن الزهري عن عروة عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أيُّمَا امْرَأةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ " مَرَّتَيْنِ... إلى آخر الحديث".
(صحيح ابن حبان : 9/ 384 (4074) كتاب النكاح/ باب الولي)
ترجمہ:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے ، تو اس کا نکاح باطل، اس کا نکاح باطل ہے۔
مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں فقہاء احناف رحمہم اللہ تعالى کا موقف یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت میں جو نکاح باطل ہونے کا فرمایا گیا ہے، اس سے مراد وہ نکاح ہے، جو نا بالغہ اور غیر عاقلہ نے خود کیا ہو، یعنی کم سن اور جنون میں مبتلا دیوانی لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر کرے، تو وہ نکاح باطل ہے اور ولی اس نکاح کو فسخ کر سکتا ہے۔ اور اگر اس حدیث کی مراد عام ہو، یعنی کوئی بھی لڑکی بغیر ولی کے نکاح کرے تو وہ باطل ہے، تو اس نکاح کا باطل ہونا نفی کمال پر محمول ہوگا، یعنی یہ نکاح اگرچہ منعقد ہو جائے گا، لیکن یہ طریقہ نا پسندیدہ ہے، لہذا اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
بہر کیف! اگر کسی بالغہ لڑکی نے ایسا غیر دانشمندانہ معاملہ کر ہی لیا ہے، تو مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اس کے نکاح کا شرعا اعتبار کیا جائے گا اور یہ عقد نافذ ہوگا، باطل نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخارى: (باب في النكاح، رقم الحدیث: 6968)
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ وَلا الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ إِذَا سَكَتَتْ.
صحيح مسلم: (باب استئذان الثيب في النكاح بالنطق و البكر بالسكوت، رقم الحدیث: 1421)
حدثنا سعيد بن منصور، وقتيبة بن سعيد، قالا حدثنا مالك، ح وحدثنا يحيى بن يحيى، واللفظ له، قال: قلت لمالك، حدثك عبد الله بن الفضل، عن نافع بن جبير، عن ابن عباس، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا قَالَ نَعَمْ.
عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 6315)
حدَّثنا مُعاذُ بنُ فَضالَة حَدثنَا هِشامٌ عنْ يَحْيَى اعنْ أبي سلَمَةَ أنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حدَّثُهُمْ أنَّ النبيَّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قَالَ: لَا تُنْكَحُ الأيِّمُ حتّى تُسْتَأْمَر، وَلَا تُنْكَحُ البِكْرُ حتّى تُسْتأذنَ. قَالُوا: يَا رسُولَ الله {وكيْفَ إِذْنُها؟ قَالَ: أنْ تَسْكُتَ.
مطابقته للتَّرْجَمَة ظَاهِرَة. ومعاذ، بِضَم الْمِيم وبالعين الْمُهْملَة والذال الْمُعْجَمَة: ابْن فضَالة، بِفَتْح الْفَاء وَتَخْفِيف الضَّاد الْمُعْجَمَة، وَهِشَام هُوَ الدستوَائي، وَيحيى هُوَ ابْن أبي كثير، وَأَبُو سَلمَة بن عبد الرَّحْمَن بن عَوْف، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ.
والْحَدِيث أخرجه البُخَارِيّ أَيْضا فِي ترك الْحِيَل عَن مُسلم بن إِبْرَاهِيم. وَأخرجه مُسلم فِي النِّكَاح عَن القواريري. وَأخرجه النَّسَائِيّ فِيهِ عَن مُحَمَّد بن عبد الْأَعْلَى.
قَوْله: (لَا تنْكح) على صِيغَة الْمَجْهُول. والأيم قد مر تَفْسِير. قَوْله: (حَتَّى تستأمر) من الاستئمار، وَهُوَ طلب الْأَمر، وَقيل: الْمُشَاورَة. قَوْله: (حَتَّى تستأذن) أَي: حَتَّى يطْلب مِنْهَا الْإِذْن. قَوْله: (لَا تنْكح الأيم) المُرَاد بِهِ الثّيّب هُنَا بِقَرِينَة قَوْله: (وَلَا تنْكح الْبكر) وَإِن كَانَ الأيم يتَنَاوَل الثّيّب وَالْبكْر، وَبِهَذَا احْتج أَبُو حنيفَة على أَن الْوَلِيّ لَا يجْبر الثّيّب وَلَا الْبكر على النِّكَاح فالثيب تستأمر وَالْبكْر تستأذن، وَالْمَرْأَة الْبَالِغَة الْعَاقِلَة، إِذا زوجت نَفسهَا من غير ولي ينفذ نِكَاحهَا عِنْده، وَعند أبي يُوسُف وَعند مُحَمَّد يتَوَقَّف على إجَازَة الْوَلِيّ. وَقَالَ الشَّافِعِي وَمَالك وَأحمد: لَا ينْعَقد بِعِبَارَة النِّسَاء أصلا لقَوْله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسلم: لَا نِكَاح إلاَّ بولِي. والْحَدِيث الْمَذْكُور حجَّة عَلَيْهِم، وَمر الْكَلَام فِي حَدِيث: لَا نِكَاح إلاَّ بولِي، مُسْتَوفى، خلاصته أَنه: لَيْسَ بمتفق عَلَيْهِ فَلَا يُعَارض مَا اتّفق عَلَيْهِ، وَلِهَذَا قَالَ البُخَارِيّ وَيحيى بن معِين: لم يَصح فِي هَذَا الْبَاب حَدِيث، يَعْنِي فِي اشْتِرَاط الْوَلِيّ. فَإِن قلت: رُوِيَ التِّرْمِذِيّ من حَدِيث الزُّهْرِيّ عَن عُرْوَة عَن عَائِشَة: أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ: أَيّمَا امْرَأَة نكحت بِغَيْر إِذن وَليهَا فنكاحها بَاطِل، فنكاحها بَاطِل. الحَدِيث. قلت: قَالَ التِّرْمِذِيّ: قد تكلم بعض أهل الحَدِيث فِي حَدِيث الزُّهْرِيّ. قَالَ ابْن جريج: ثمَّ لقِيت الزُّهْرِيّ فَسَأَلته فَأنْكر. وضعفوا هَذَا الحَدِيث من أجل هَذَا. فَإِن قلت: قَالَ الترمذي هَذَا حَدِيث حسن. قلت: من أَيْن لَهُ الْحسن وَقد أنكرهُ الزُّهْرِيّ؟ فَإِن قلت: إِنْكَاره لَا يعين التَّكْذِيب بل يحْتَمل أَنه رَوَاهُ فنسيه إِذْ كل مُحدث لَا يحفظ مَا رَوَاهُ. قلت: إِذا احْتمل التَّكْذِيب وَالنِّسْيَان فَلَا يبْقى حجَّة، وَيلْزم المحتج بِهِ أَن يَقُول بِمَفْهُوم الْخطاب وَمَفْهُوم هَذَا يَقْتَضِي صِحَة النِّكَاح بِإِذن الْوَلِيّ فَلَا تَقول بِهِ.
الدر المختار: (باب الولی، 55/3، ط: سعید)
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا".
بدائع الصنائع: (فصل: ولایة الندب و الاستحباب في النکاح، 247/2، ط: سعید)
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".
فتح القدیر: (باب الأولیاء و الأکفاء، 293/3، ط: دار الفکر)
"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش".
الفتاوی الھندیۃ: (الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح، 292/1، ط: رشیدیة)
"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلاينفسخ النكاح بينهما".
کذا فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144004200498
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی