سوال:
مفتی صاحب ! بعض نکاح خواہ حضرات نکاح خوانی پر فیس لیتے ہیں، اس فیس کا کیا حکم ہے؟
جواب: نکاح پڑھانے والے کا اپنے اور متعاقدین کے درمیان نکاح خوانی پر طے شدہ فیس لینا جائز ہے، بشرطیکہ نکاح خواہ متعاقدین کا ولی نہ ہو، کیونکہ ولی کے لئے عقد کرانے پر فیس لینا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ عقد کرانا ولی کے ذمہ واجب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (345/3، ط: رشیدیہ)
وفي فتاوى النسفي إذا كان القاضي يتولى القسمة بنفسه حل له أخذ الأجرة وكل نكاح باشره القاضي وقد وجبت مباشرته عليه كنكاح الصغار والصغائر فلا يحل له أخذ الأجرة عليه وما لم تجب مباشرته عليه حل له أخذ الأجرة عليه كذا في المحيط واختلفوا في تقديره والمختار للفتوى أنه إذا عقد بكرا يأخذ دينارا وفي الثيب نصف دينار ويحل له ذلك هكذا قالوا كذا في البرجندي۔
خلاصۃ الفتاویٰ: (48/4)
ولا یحل لہ اخذ شئی علی النکاح ان کان نکاحاً یجب علیہ مباشرتہ کنکاح الصغائر وفی غیرہ یحل۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی