سوال:
مفتی صاحب ! عید کے موقع پر لوگ پرانے نوٹ دے کر نئے نوٹوں کی گڈی لیتے ہیں اور نئے نوٹ دینے والا مثلا 1000 روپے کی گڈی پر کچھ اضافی رقم 200 یا 300 روپے لیتا ہے، مجھے یہ بتادیں کہ یہ اضافی رقم لینا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جب نوٹوں کا تبادلہ کرنا ہو اور ایک ہی ملک کی کرنسی ہو، تو اس میں برابری ضروری ہے، جبکہ کمی یا زیادتی سود میں شمار ہوگی، چاہے نوٹ نئے ہوں یا پرانے ہوں، لہذا 1000 روپے کے نوٹوں کی گڈی پر 200 یا 300 روپے اضافی رقم لینا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
صحیح مسلم: (227/2)
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.
الھدایۃ: (81/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
الصرف هو البيع إذا كان كل واحد من عوضيه من جنس الأثمان۔۔۔قال: "فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة" لقوله عليه الصلاة والسلام: "الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن يدا بيد والفضل ربا" الحديث. وقال عليه الصلاة والسلام: "جيدها ورديئها سواء" وقد ذكرناه في البيوع.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی