سوال:
السلام علیکم، ہمارے یہاں پھوپھی زاد لڑکے اور ماموں زاد لڑکی کی شادی ہوئے 7 یا 8 سال ہوئے، 3 لڑکے ہیں، لڑکی کا شوہر نہ کماتا ہے، نہ خرچ اٹھاتا ہے، چرس پیتا ہے اور نشہ میں مارتا پیٹتا ہے، وقت کے ساتھ اس کی غیرذمہ داری اور زیادتیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، پہلے بھی جھوٹی تسلیاں ملتی رہی ہیں، لڑکی پہلے بھی طلاق کا مطالبہ کرچکی ہے، پھر بچوں کے لیے صبر کرلیتی تھی، لیکن اب زیادتیوں اور ذلت کے باعث تنگ آکر علیحدگی چاہتی ہے، وہ یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے کورٹ کے ذریعے خلع لے سکتی ہے ؟
لڑکی کے ددھیالی جو کے لڑکے کے ننھیالی رشتہ دار ہیں، وہ اس سلسلے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں کہ تمام زیادتیاں برداشت کرو، کیونکہ علیحدگی شریعت میں ناپسندیدہ ہے، بس جو ہے نصیب کا لکھا ہے، اللّٰهُ کی مرضی یہی ہے۔
براہ کرم وضاحت فرمادیں کہ ایسی صورت حال میں خلع لینا کیسا ہے؟
جواب: سب سے پہلے خاندان والوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مناسب اور جائز طریقہ سے شوہر کو سمجھائیں کہ وہ ظلم و زیادتی سے باز آجائے اور الفت و محبت کے ساتھ زندگی گزارے اور بیوی کے حقوق ادا کرے، لیکن اگر کسی طرح صلح کی کوئی شکل نہ نکل سکے اور شوہر کے ظلم کی وجہ سے عورت اس کے ساتھ رہنا گوارہ نہ کرے، تو پھر شوہر کو طلاق پر آمادہ کرنا چاہیے، اور اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو، تو باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرلیں، لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع دینے پر رضامند ہو، تو عورت عدالت سے تنسیخ نکاح کے لیے رجوع کرسکتی ہے۔
جس کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے پیش کرے، اور متعلقہ جج شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ معاملہ کی پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہوجائے، تو اس عورت کے شوہر سے کہا جائے گا کہ عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پرعمل نہ کرے، تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو، عورت پر طلاق واقع کردے۔ شوہر اگر طلاق یا خلع پر راضی نہ ہو، تو کسی مسلمان قاضی یا جج کے ذریعہ مذکورہ طریقے کے مطابق نکاح فسخ کروایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 229)
وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ، فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ، وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَo
الهداية: (261/2، ط: دار احياء التراث العربي)
وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به " لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] " فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال.
الفتاوی الهندية: (488/1، ط: دار الفكر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال.
حیلة ناجزۃ: (ص: 73- 74، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی