سوال:
ہمارے گاؤں میں رواج ہے کہ شادی کے موقع پر رخصتی کے وقت دلہن کے سر قرآن کا سایہ کیا جاتا ہے، کیا شریعت میں اس کی کوئی اصل ہے؟
جواب: رخصتی کے وقت دلہا یا دلہن کےسر پر قرآن کریم کا سایہ کرنے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، قرآن اور حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللّٰہ، کسی سے بھی یہ عمل ثابت نہیں ہے، نیز اس میں قرآن کریم کی بے ادبی کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے اس رسم سے اجتناب کرنا چاہیے اور حقیقی معنوں میں ہمیں اپنی زندگی قرآن کریم کے سایہ (قرانی تعلیمات پر عمل کر کے) گزارنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 867)
عَنْ جَابِرٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ:کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَیْنَاہُ، وَعَلاَ صَوْتُہٗ، وَاشْتَدَّ غَضَبُہٗ، کَأَنَّہٗ مُنْذِرُ جَیْشٍ۔ثُمَّ یَقُوْلُ:صَبَّحَتکُمْ أَوْمَسَّتکُمُ السَّاعَۃُ، ثُمَّ یَقُوْلُ: "بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ"، یُفَرِّقُ بَیْنَ أَصَابِعِہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، ثُمَّ یَقُوْلُ: "خَیْرُ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّالْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا، وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی