عنوان: عورت کی امامت کے جواز سے متعلق "حدیث امّ ورقہ" کا جائزہ اور تحقیق(7711-No)

سوال: رسول اللہ ﷺ ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ ﷺ نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔ (ابو داؤد، رقم الحدیث:592) کیا مندرجہ بالا حدیث صحیح ہے؟ نیز کیا اس حدیث سے عورت کی نماز میں امامت کی اجازت ملتی ہے؟

جواب: سوال میں ذکرکردہ حدیث امّ ورقہ کی تحقیق کرنے سے پہلے ’’عورت کی امامت‘‘ سے متعلق ائمہ اربعہ کے اقوال ذکرکئے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن وسنت سے یہ بات ثابت ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہے اور یہ چاروں ائمہ ،جمہورمحدثین ،فقہاء اور مفسرین کرام کا مذہب ہےاور اسی پر روزِ اول سے امت کا مسلسل اور متواتر عمل اور اجماع چلاآرہا ہے۔
جبکہ احناف اور مالکیہ کے نزدیک عورت کا عورت کی امامت کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے۔
سوال میں ذکرکردہ روایت کا جائزہ لینے سے پہلے اس مسئلہ پر قرآن وسنت اور فقہا ء کرام کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کاارشادہے :
الرجال قوامون على النساء
(سورۃ النساء :۳۴)
ترجمہ :
مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔
علامہ آلوسی ؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
شأنهم القيام عليهن قيام الولاة على الرعية بالأمر والنهي ونحو ذلك۔۔۔۔ ولذا خصوا بالرسالة والنبوة على الأشهر، وبالإمامة الكبرى والصغرى، وإقامة الشعائر كالأذان والإقامة والخطبة والجمعة
(23/3،ط:دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ:
مردوں کی شان عورتوں پرامر بالمعروف اور نھی عن المنکر اور دیگر امور میں بادشاہ کی رعایا پر حکمرانی کی طرح ہے ۔۔۔اسی وجہ سے مردوں کو نبوت،رسالت،امامت کبری (حکمرانی) ،امامت صغری(نماز کی امامت)اور شعائر اسلام مثلاً اذان ،اقامت، خطبہ اور جمعہ کے قائم کرنے لیے خاص کیا گیا ہے۔
مزید تفصیل کے لئے البحر المحیط 239/3- تفسیر مظہری 98/2- حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی 314/3-اللباب 360/6کا مطالعہ کیجئے۔

تمام کے تمام مفسرین آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ عورت جس طرح اپنی فطری ونسوانی ساخت کی وجہ سے نبی اور رسول نہیں بن سکتی، اسی طرح مسجدمیں اذان واقامت نہیں کہہ سکتی، جمعہ وعیدین کا خطبہ نہیں دے سکتی اور نہ ہی مردوں کے لئے امام بن سکتی ہے۔
۲۔ سنن ابن ماجہ کی ایک طویل روایت میں ہے :
ألا لا تؤمن امرأة رجلا
(حدیث نمبر:1081، 286/2،ط: دارالجیل )
(أخرجہ الطبرانی فی المعجم الاوسط:64/2،ط:دارالحرمین، البیھقی فی شعب الایمان :2754،ط:مکتبۃ الرشد،وفیسننہ الکبری:(5570)،ط:دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ: جناب رسول اللہ ﷺنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہ کرے۔
۳۔مسلم شریف کی روایت ہے :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير صفوف الرجال أولها، وشرها آخرها، وخير صفوف النساء آخرها، وشرها أولها»
(حدیث نمبر:440، ط:دارإحیاء التراث العربی)
ترجمہ:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مردوں کی بہترین صف پہلی اور سب سے بری آخری ہے اور عورتوں کی سب سے بہترین صف آخری اور سب سے بری پہلی ہے۔
۴۔بخاری شریف میں ہے:
عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: «صلى النبي صلى الله عليه وسلم في بيت أم سليم، فقمت ويتيم خلفه وأم سليم خلفنا»
(حدیث نمبر: 871،ط:دارطوق النجاۃ)
ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک دن نماز پڑھائی، تو میں اور ایک لڑکا آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی ہوئیں) ۔
ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ عورت کی صف ہی مردوں کے پیچھے ہے،چہ جائیکہ وہ امامت کرائے۔
عورت کی امامت کے عدم ِجواز پر ائمہ اربعہ اور فقہائے کرام کی عبارات
فقہ حنفی :
تمام متقدمین اور متأخرین احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کی نماز عورت کے پیچھے جائز نہیں ہے،بلکہ صرف عورتوں کی جماعت بھی مکروہ تحریمی ہے۔
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے
المرأة تخالف الرجل في مسائل۔۔۔۔ ولا تؤم الرجال
(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص:59،ط:دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ:
عورت (کا معاملہ )مرد سے چند مسائل میں مختلف ہے ،ان میں سے ایک یہ کہ عورت مرد کی امامت نہیں کرسکتی۔
فقہ مالکی:
فقہ مالکی کی کتاب ’’الثمرالدانی شرح رسالۃابن أبی زید‘‘ میں ہے
ولا تؤم المرأة في فريضة ولا نافلة لا رجالا ولا نساء" وكما لا تؤم المرأة لا يؤم الخنثى المشكل فإن ائتم بهما أحد أعاد أبدا على المذهب سواء كان من جنسهما أولا۔۔۔ فاعلم أن الذكورة المحققة شرط في صحة الإمامة۔
(ص:148،ط:المکتبۃ الثقافیۃ)
ترجمہ:
عورت امامت نہیں کراسکتی نہ فرض نمازوں میں اور نہ نفل نمازوں میں ،نہ مردوں کی اور نہ عورتوں کی اور جیسے عورت امامت نہیں کرسکتی ،ایسے ہی خنثی مشکل بھی امامت نہیں کرسکتا،پس اگر کسی نے ان دونوں کی اقتداء کی ،تو ہمیشہ اس (نماز) کا اعاد کرے گا،چاہے ان دونوں کی جنس میں سے ہویا نہ ہو،یعنی عورت یا خنثی مشکل ہو ۔۔۔یہ بات جان لو !مذکر ہونا (مرد ہونا)امامت کی صحت کےلیے شرط ہے۔
فقہ شافعی:
امام شافعیؒ کتاب’’الام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ولایجوز ان تکون امرأۃ امام رجل فی صلاۃ بحال ابداً‘‘۔
(191/1،ط:دارالمعرفۃ
)
ترجمہ: کسی بھی صورت میں کسی بھی نماز میں جائز نہیں ہے کہ عورت مرد کی امامت کرے ۔
فقہ شافعی کے مشہور اور مستند امام نوووی ؒ لکھتے ہیں:
واتفق أصحابنا على أنه لا تجوز صلاة رجل بالغ ولا صبي خلف امرأة حكاه عنهم القاضي أبو الطيب والعبد رى ولا خنثى خلف امرأة ولا خنثى لما ذكره المصنف وتصح صلاة المرأة خلف الخنثى وسواء في منع إمامة المرأة للرجال صلاة الفرض والتراويح وسائر النوافل هذا مذهبنا ومذهب جماهير العلماء من السلف والخلف رحمهم الله وحكاه البيهقي عن الفقهاء السبعة فقهاء المدينة التابعين وهو مذهب مالك وأبي حنيفة وسفيان وأحمد وداود
(المجموع شر ح المھذب ،255/4،ط:دارالفکر)
ترجمہ:
عورت کی امامت مردوں کے لئے ممنوع ہونے میں فرض، تراویح اور تمام نوافل برابر ہیں، ہمارا اور جمہور فقہأ کرام کا سلفاً وخلفاً یہی مذہب ہے اورامام بیہقیؒ نے بھی مدینہ کے سات تابعین فقہأ سے اسی طرح نقل کیا ہے اور یہی امام مالکؒ ، امام ابوحنیفہؒ، سفیانؒ، امام احمدؒ اور داؤدؒ کا مذہب ہے ۔
فقہ حنبلی
فقہ حنبلی کے مشہور عالم علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

لنا قول النبي صلى الله عليه و سلم : [ لا تؤمن امرأة رجلا ] ولأنها لا تؤذن للرجال فلم يجز أن تؤمهم كالمجنون ۔۔۔۔۔ ولو قدر ثبوت ذلك لأم ورقة لكان خاصا بها بدليل أنه لا يشرع لغيرها من النساء أذان ولا إقامة فتختص بالإمامة لاختصاصها بالأذان والإقامة
(333/3،ط:عالم الکتب)
ترجمہ:
’’ ہماری دلیل نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ: عورت مرد کے لئے امام نہ بنے (اور دوسری یہ دلیل) کہ عورت مردوں کے لئے اذان نہیں دے سکتی، تو مردوں کی امام بھی نہیں بن سکتی، جیساکہ مجنون۔۔۔۔۔ اور اگر ام ورقہ ؓ کے متعلق مردوں کی جماعت کرانا ثابت مان بھی لیا جائے تو یہ ان کی خصوصیت تھی، جس کی دلیل یہ ہے کہ کسی اور عورت کا اذان واقامت کہنا جائز نہیں، پس اذان واقامت کی طرح امامت کرنا بھی ان کی خصوصیت تھی‘‘۔
اجماع امت سے مرد کے لئے عورت کی امامت کی ممانعت:
تمام علمائےامت کا چودہ سو سالہ اجماع ہے کہ عورت مرد کے لئے امام نہیں بن سکتی،چنانچہ علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
وأجمع العلماء على أن الرجال لا يؤمهم النساء".
(الاستذكارلابن عبد البر:79/2،ط:دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ:
علماء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت مرد کے لئے امام نہیں بن سکتی ہے۔
جبکہ اس بارے میں علامہ ابن حزم فرماتے ہیں:
ولا يجوز أن تؤم المرأة الرجل ولا الرجال, وهذا مما لا خلاف فيه
(المحلی بالاثار:167/2،ط:دارالفکر)
ترجمہ:
تمام علماء کا اتفاق ہے کہ عورت مرد کے لئے امامت نہیں کرسکتی اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔
اور اعلاء السنن میں ہے:
أما إمامة المرأة للرجال فمما اتفق الأئمة الأربعة على عدم صحتها۔۔۔الخ
( إعلاء السنن :1284/3،ط: دارالفکر)
ترجمہ:
عورت کی مردوں کے لیے امامت کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔
سوال میں ذکرکردہ روایت کا جائزہ:
سوال میں ذکرکردہ روایت سند ،متن ،ترجمہ اورحکم کے ساتھ ذکرکی جاتی ہے۔
حدثنا الحسن بن حماد الحضرمي، حدثنا محمد بن فضيل، عن الوليد بن جميع، عن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث، بهذاالحديث، والأول أتم، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها، وأمرها أن تؤم أهل دارها، قال عبد الرحمن: فأنا رأيت مؤذنها شيخا كبيرا
(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر: 592،ط:المکتبۃ العصریۃ)
ترجمہ:
حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اسی طرح روایت ہے مگر پہلی حدیث مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر ان سے ملنے جاتے تھے اور ان کے لئے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لئے اذان دیتا تھا اور آپ ﷺ نے ان کو اہل خانہ کی امامت کی اجازت دی تھی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا وہ بہت بوڑھے تھے۔
تخریج:
أخرجہ فی أحمدفی مسندہ :۴۵؍۲۵۳(۲۷۲۸۳)،ط:مؤسسۃ الرسالۃ، وأبن خزیمۃ فی صحیحہ:۳؍۸۹،(۱۶۷۶)،ط:المکتب الإسلامی،و الطبرانی فی العجم الکبیر:۲۵؍۱۳۴(۳۲۶)،ط:مکتبۃ ابن تیممیۃ، والحاکم فی مستدرکہ :۱؍۳۲۰،(۷۳۰)،ط:دارالمکتب الاسلامی،والبیھقی فی سننہ الکبری:۱؍۵۹۷،(۱۹۰۹)،(۵۳۵۳)ط:دارالکتب العلمیۃ،والدارقطنی فی سننہ :۲؍۲۶۱(۱۵۰۶)،ط:مؤسسۃ الرسالۃ
مذکورہ بالاحدیث سے استدلال :
اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ام ورقہ کے عمردراز موذن اور ان کے غلام ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، لہذا عورت کے لئے امامت کرانا جائز ہے، حالانکہ اس روایت سے یہ بات ثابت کرنا درست نہیں ہے،کیونکہ جب اس حدیث کے تمام طرق کو مدنظر رکھا جائے،تو یہ بات واضح ہوتی ہےکہ کہ یہ ایک محدود، مقید، مشروط اور مخصوص اجازت تھی، جس کو عمومی شکل دینا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ بالاحدیث کےدیگر طرق:
۱۔ الوليد بن عبد الله بن جميع عن جدتہ وعبد الرحمن بن خلاد الأنصاري، عن أم ورقة بنت عبد الله بن نوفل الأنصارية۔
حدثنا الوليد بن عبد الله بن جميع، قال: حدثتني جدتي، وعبد الرحمن بن خلاد الأنصاري، عن أم ورقة بنت عبد الله بن نوفل الأنصارية، وفيه «وكانت قد قرأت القرآن فاستأذنت النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تتخذ في دارها مؤذناً فأذن لها
(سنن أبی داؤد: ۱؍۱۶۱(۵۹۱)ط:المکتبۃ العصریۃ)
۲۔ عن الوليد بن جميع، عن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث
عن الوليد بن جميع، عن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث، بهذا الحديث، والأول أتم، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها، وأمرها أن تؤم أهل دارها
(سنن أبی داؤد، :۱؍۱۶۱(۵۹۲)، ط:المکتبۃ العصریۃ
)
۳۔الوليد، عن جدتہ، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث الأنصاري
حدثنا أبو نعيم، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثتني جدتي، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث الأنصاري، وكانت قد جمعت القرآن، «وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد أمرها أن تؤم أهل دارها» ، وكان لها مؤذن، وكانت تؤم أهل دارها
(أخرجہ أحمدفی مسندہ :۴۵؍۲۵۳(۲۷۲۸۳)،ط:مؤسسۃ الرسالۃو أسحاق بن رھویۃ فی مسندہ:۵؍۲۳۴(۲۳۸۱)،ط:مکتبۃالایمان، و الطبرانی فی العجم الکبیر:۲۵؍۱۳۴(۳۲۶)،ط:مکتبۃ ابن تیممیۃ،والبیھقی فی دلائل النبوۃ:۶؍۳۸۱،ط:دارالکتب العلمیۃ والدارقطنی فی سننہ :۲؍۲۶۱(۱۵۰۶)،ط:مؤسسۃ الرسالۃ وأبو نعیم فی الحلیۃ :۲؍۶۳،ط:دارالفکر)
۴۔ عن الوليد بن جميع، عن ليلى بنت مالك، عن أبيها، وعن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة
ثنا نصر بن علي، نا عبد الله بن داود، عن الوليد بن جميع، عن ليلى بنت مالك، عن أبيها، وعن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: «انطلقوا بنا نزور الشهيدة» ، وأذن لها أن تؤذن لها، وأن تؤم أهل دارها في الفريضة، وكانت قد جمعت القرآن

(صحیح أبن خزیمۃ:۳؍۸۹،(۱۶۷۶)،ط:المکتب الإسلامی)
۵۔ الوليد بن جميع , عن أمه , عن أم ورقة
حدثنا أحمد بن العباس البغوي , ثنا عمر بن شبة، نا أبو أحمد الزبيري , نا الوليد بن جميع , عن أمه , عن أم ورقة , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أذن لها أن يؤذن لها ويقام وتؤم نساءها»
(سنن الدارقطنی:۲؍ ۲۱(۱۰۸۴)،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
یہ کل پانچ طرق ہوئے، ان میں دارقطنی کی حدیث کے علاوہ باقی تمام طرق میں "تؤم أهل دارها" کی بات مطلق آئی ہے، یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل خانہ کی امامت کا حکم دیا تھا، اب یہ اہل خانہ کون تھے؟ (مرد یا صرف عورتیں)
ابوداؤد کی حدیث میں اس کا ذکر وتعین نہیں ہے، صرف سنن دارقطنی کی مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے"وتؤم نساءها" کہ حضور اکرم ﷺنے ام ورقہ کو اپنے محلہ کی خواتین کی امامت کا حکم دیا تھا، مردوں کی امامت کا حکم نہیں دیا تھا۔
جب ایک روایت میں اس کی قید آگئی، تو اب بقیہ تمام مطلق روایات کو اسی پر محمول کیا جائے گا، لہذا حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبیلے کی خواتین کی امامت کرتی تھی، مرد اس میں شریک نہیں ہوتے تھےاور شوافع وحنابلہ کے نزدیک عورتوں کی امامت عورتوں کے لئے جائز ہے، وہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں، احناف کے نزدیک عورتوں کی امامت عورتوں کے لئے بھی مکروہِ تحریمی ہے۔
حکم:
اس روایت کا مدار ’’ولید بن جمیع ‘‘اوران کے استاذ ’’عبد الرحمن بن خلاد‘‘’’ولید بن جمیع کی دادی ‘‘ پرہے اور محدثین کرام ؒ نے ان پر کلام کیا ہے۔
علامہ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
في إسناده: الوليد بن جميع، وقد أخرج له مسلم، وفيه مقال.
(مختصر سنن أبي داود:۲؍۳۱۸،ط:مکتبۃ المعارف)
ترجمہ:
اس کی سند میں ’’ولید بن جمیع ‘‘ہےاور امام مسلم نے ان روایت نقل ہے (لیکن)ان کے بارے میں کلام ہے۔
علامہ عقیلی فرماتے ہیں :
الوليد بن عبد الله بن جميع الزهري في حديثه اضطراب.
ترجمہ:
ولید بن وکیع کی روایت میں اضطراب ہے۔
(الضعفاء للعقیلی :۴؍۳۱۷(۱۹۱۸)،ط:دارالمکتبۃ العلمیۃ)
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں :
وفي إسناده عبد الرحمن بن خلاد وفيه جهالة.

ترجمہ:
اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن خلاد راوی ہے اور وہ مجہول الحال ہے۔
(التلخیص الحبیر:۲؍۶۸(۵۵۶)،ط: دارالکتب العلمیۃ، کذا فی التقریب :۳۳۹،مکتبۃ دارالرشید)
علامہ ابن القطان فرماتے ہیں:
وأستبعد عليه تصحيحه، فإن حال عبد الرحمن بن خلاد مجهولة، وهو كوفي، وجدة الوليد كذلك لا تعرف أصلا
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام:۵؍۲۳،ط:دارطیبۃ)
ترجمہ:
اس حدیث کو صحیح قراردینا مستبعد ہے ،کیونکہ عبدالرحمن بن خلاد مجہول ہے اورولید کی دادی بھی اسی طرح ہے ،اس کی بھی اصل معلوم نہیں ہے۔
علامہ ابولید الباجی فرماتے ہیں :
وهذا الحديث مما لا يجب أن يعول عليه.
(المنتقی :۱؍۲۳۵،ط:دارالکتاب الاسلامی)
ترجمہ: یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے،جن پر اعتماد ضروری نہیں ہے۔
خلاصہ کلام :
عورت کا مرد کے لئے امام بننا قرآن، حدیث اور اجماع امت ہر ایک کے خلاف ہے اورسوال میں ذکرکردہ روایت کی سند اور متن میں شدیداضطراب ہونے کی وجہ سے ضعف ہے اور اس حدیث کو عورت کا مردوں کی امامت کرنے کےجواز پر دلیل بنانا درست نہیں ہے،جیسا کہ تفصیلاً ذکر ہوا ، اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیاجائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے ’’عورت کاعورتوں کی امامت کرنا‘‘ ثابت ہوگا، جبکہ’’عورت کاعورتوں کی امامت کرنا‘‘دوسرے دلائل کی روشنی میں مکروہ تحریمی ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 3622 Jun 01, 2021
aourat ki imamat kay jawaz say mutalliq hadees umm e ka jaiza or tehqeeq, Review and investigation of "Hadith Umm Waraqah" regarding the justification of the Imamat / leading the prayer of / by a woman

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.