resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: عورت کی امامت کے جواز سے متعلق ’’حدیث امّ ورقہ ‘‘ کا جائزہ اورتحقیق (7711-No)

سوال: سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا، جو اذان دیتا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا، وہ بہت بوڑھے تھے۔(ابو داؤد، رقم الحدیث:592) مفتی صاحب ! کیا مندرجہ بالا حدیث صحیح ہے، نیز کیا اس حدیث سے عورت کی نماز میں امامت کی اجازت ملتی ہے؟

جواب: عورت کا مرد کے لئے امام بننا قرآن، حدیث اور اجماع امت ہر ایک کے خلاف ہے اورسوال میں ذکرکردہ روایت کی سند اور متن میں شدیداضطراب ہونے کی وجہ سے ضعف ہے اور اس حدیث کو عورت کا مردوں کی امامت کرنے کےجواز پر دلیل بنانا درست نہیں ہے،جیسا کہ تفصیلاً ذکر ہوا ، اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیاجائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے ’’عورت کاعورتوں کی امامت کرنا‘‘ ثابت ہوگا، جبکہ’’عورت کاعورتوں کی امامت کرنا‘‘دوسرے دلائل کی روشنی میں مکروہ تحریمی ہے۔
سوال میں ذکرکردہ حدیث امّ ورقہ کی تحقیق کرنے سے پہلے ’’عورت کی امامت‘‘ سے متعلق ائمہ اربعہ کے اقوال ذکرکئے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن وسنت سے یہ بات ثابت ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہے اور یہ چاروں ائمہ ،جمہورمحدثین ،فقہاء اور مفسرین کرام کا مذہب ہےاور اسی پر روزِ اول سے امت کا مسلسل اور متواتر عمل اور اجماع چلاآرہا ہے،جبکہ احناف اور مالکیہ کے نزدیک عورت کا عورت کی امامت کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے۔
سوال میں ذکرکردہ روایت کا جائزہ لینے سے پہلے اس مسئلہ پر قرآن وسنت اور فقہا ء کرام کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کاارشادہے :
الرجال قوامون على النساء(سورۃ النساء :34)
ترجمہ :
’’مرد عورتوں پر حاکم ہیں‘‘۔
علامہ آلوسی ؒ (م1270 ھ)اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ترجمہ:
مردوں کی شان عورتوں پرامر بالمعروف اور نھی عن المنکر اور دیگر امور میں بادشاہ کی رعایا پر حکمرانی کی طرح ہے ۔۔۔اسی وجہ سے مردوں کو نبوت،رسالت،امامت کبری (حکمرانی) ،امامت صغری(نماز کی امامت)اور شعائر اسلام مثلاً اذان ،اقامت، خطبہ اور جمعہ کے قائم کرنے لیے خاص کیا گیا ہے۔(1)
(مزید تفصیل کے لیے البحر المحیط :3/239- تفسیر مظہری :2/98و حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی :3/314-اللباب 6/360کا مطالعہ کیجیے۔)
تمام کے تمام مفسرین آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ عورت جس طرح اپنی فطری ونسوانی ساخت کی وجہ سے نبی اور رسول نہیں بن سکتی، اسی طرح مسجدمیں اذان واقامت نہیں کہہ سکتی، جمعہ وعیدین کا خطبہ نہیں دے سکتی اور نہ ہی مردوں کے لئے امام بن سکتی ہے۔
2۔ سنن ابن ماجہ کی ایک طویل روایت میں ہے :
ترجمہ: جناب رسول اللہ ﷺنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہ کرے۔(حدیث نمبر:1081،ط: دارالجیل )(2)
3۔مسلم شریف کی روایت ہے :
ترجمہ:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مردوں کی بہترین صف پہلی اور سب سے بری آخری ہے اور عورتوں کی سب سے بہترین صف آخری اور سب سے بری پہلی ہے۔(حدیث نمبر:440، ط:دارإحیاء التراث العربی)(3)
4۔بخاری شریف میں ہے:
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک دن نماز پڑھائی، تو میں اور ایک لڑکا آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی ہوئیں) ۔(حدیث نمبر: 871،ط:دارطوق النجاۃ)(4)
ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ عورت کی صف ہی مردوں کے پیچھے ہے،چہ جائیکہ وہ امامت کرائے۔
عورت کی امامت کے عدم ِجواز پر ائمہ اربعہ اور فقہائے کرام کی عبارات
فقہ حنفی :
تمام متقدمین اور متأخرین احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کی نماز عورت کے پیچھے جائز نہیں ہے،بلکہ صرف عورتوں کی جماعت بھی مکروہ تحریمی ہے۔
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:
ترجمہ:عورت (کا معاملہ )مرد سے چند مسائل میں مختلف ہے ،ان میں سے ایک یہ کہ عورت مرد کی امامت نہیں کرسکتی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص:59،ط:دارالکتب العلمیۃ)(5)
فقہ مالکی:
فقہ مالکی کی کتاب ’’الثمرالدانی شرح رسالۃابن أبی زید‘‘ میں ہے
ترجمہ:عورت امامت نہیں کراسکتی نہ فرض نمازوں میں اور نہ نفل نمازوں میں ،نہ مردوں کی اور نہ عورتوں کی اور جیسے عورت امامت نہیں کرسکتی ،ایسے ہی خنثی مشکل بھی امامت نہیں کرسکتا،پس اگر کسی نے ان دونوں کی اقتداء کی ،تو ہمیشہ اس (نماز) کا اعاد کرے گا،چاہے ان دونوں کی جنس میں سے ہویا نہ ہو،یعنی عورت یا خنثی مشکل ہو ۔۔۔یہ بات جان لو !مذکر ہونا (مرد ہونا)امامت کی صحت کےلیے شرط ہے۔(ص:148،ط:المکتبۃ الثقافیۃ) (6)
فقہ شافعی:
امام شافعیؒ (م 204ھ )کتاب’’الام‘‘ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: کسی بھی صورت میں کسی بھی نماز میں جائز نہیں ہے کہ عورت مرد کی امامت کرے ۔(1/191،ط:دارالمعرفۃ) (7)
فقہ شافعی کے مشہور اور مستند امام نوووی ؒ (م676ھ)لکھتے ہیں:
ترجمہ:عورت کی امامت مردوں کے لئے ممنوع ہونے میں فرض، تراویح اور تمام نوافل برابر ہیں، ہمارا اور جمہور فقہأ کرام کا سلفاً وخلفاً یہی مذہب ہے اورامام بیہقیؒ نے بھی مدینہ کے سات تابعین فقہأ سے اسی طرح نقل کیا ہے اور یہی امام مالکؒ ، امام ابوحنیفہؒ، سفیانؒ، امام احمدؒ اور داؤدؒ کا مذہب ہے ۔(المجموع شر ح المھذب ،4/255،ط:دارالفکر)(8)
فقہ حنبلی
فقہ حنبلی کے مشہور عالم علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ(م620ھ) لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’ ہماری دلیل نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ: عورت مرد کے لئے امام نہ بنے (اور دوسری یہ دلیل) کہ عورت مردوں کے لئے اذان نہیں دے سکتی، تو مردوں کی امام بھی نہیں بن سکتی، جیساکہ مجنون۔۔۔۔۔ اور اگر ام ورقہ ؓ کے متعلق مردوں کی جماعت کرانا ثابت مان بھی لیا جائے تو یہ ان کی خصوصیت تھی، جس کی دلیل یہ ہے کہ کسی اور عورت کا اذان واقامت کہنا جائز نہیں، پس اذان واقامت کی طرح امامت کرنا بھی ان کی خصوصیت تھی‘‘۔(المغني لابن قدامة الحنبلي: (2/146،ط:مكتبة القاهرة) (9)
اجماع امت سے مرد کے لئے عورت کی امامت کی ممانعت:
تمام علمائےامت کا چودہ سو سالہ اجماع ہے کہ عورت مرد کے لئے امام نہیں بن سکتی،چنانچہ علامہ ابن عبدالبر فرماتے ہیں:ترجمہ:علماء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت مرد کے لئے امام نہیں بن سکتی ہے۔ الاستذكارلابن عبد البر:(2 /79،ط:دارالکتب العلمیۃ) (10)
علامہ ابن حزم ظاهرى(م 456ھ) فرماتے ہیں:ترجمہ:تمام علماء کا اتفاق ہے کہ عورت مرد کے لئے امامت نہیں کرسکتی اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔(المحلی بالاثار:(2 /167،ط:دارالفکر)(11)
اور اعلاء السنن میں ہے:ترجمہ:عورت کی مردوں کے لیے امامت کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔( إعلاء السنن :3 /1284،ط: دارالفکر)(12)
سوال میں ذکرکردہ روایت کا جائزہ:
سوال میں ذکرکردہ روایت كا ترجمہ اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اسی طرح روایت ہے مگر پہلی حدیث مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر ان سے ملنے جاتے تھے اور ان کے لئے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لئے اذان دیتا تھا اور آپ ﷺ نے ان کو اہل خانہ کی امامت کی اجازت دی تھی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا وہ بہت بوڑھے تھے۔(سنن أبی داؤد، حدیث نمبر: 592،ط:المکتبۃ العصریۃ)(13)
تخریج الحدیث:
1۔اما م احمد بن حنبل (م241 ھ) نے ’’مسند احمد‘‘(45/253) ،رقم الحدیث :27283،ط: مؤسسة الرسالة)میں ذکر کیا ہے۔
2۔حافظ ابن خزیمہ (م 311 ھ) نے’’صحیح ابن خزیمہ‘‘(3/89)،رقم الحدیث:1676،ط:المکتب الإسلامی) میں ذکر کیا ہے۔
3۔امام دارقطنى(م 385 ھ) نے’’سنن الدارقطنى‘‘(2/261)،رقم الحدیث:1506 ،ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکر کیا ہے۔
4۔امام طبرانی (م 360ھ)نے ’’المعجم الکبیر‘‘(25/134)،رقم الحديث:326،ط:مکتبۃ ابن تيمية) میں ذکر کیا ہے۔
5۔امام حاكم (م 405 ھ) نے’’مستدرك ‘‘(1/320)، رقم الحديث:730 ،ط:دارالمکتب الاسلامی) میں ذکر کیا ہے۔
6۔امام بیہقی(م 458ھ) نے’’السنن الكبرى‘‘(1/ 186)،رقم الحدیث: 5353،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ بالاحدیث سے استدلال :
اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ام ورقہ کے عمردراز موذن اور ان کے غلام ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، لہذا عورت کے لئے امامت کرانا جائز ہے، حالانکہ اس روایت سے یہ بات ثابت کرنا درست نہیں ہے،کیونکہ جب اس حدیث کے تمام طرق کو مدنظر رکھا جائے،تو یہ بات واضح ہوتی ہےکہ کہ یہ ایک محدود، مقید، مشروط اور مخصوص اجازت تھی،جس کو عمومی شکل دینا جائز نہیں ہے۔
مذکورہ بالاحدیث کےدیگر طرق:
1۔ الوليد بن عبد الله بن جميع عن جدتہ وعبد الرحمن بن خلاد الأنصاري، عن أم ورقة بنت عبد الله بن نوفل الأنصارية۔(سنن أبی داؤد( 1/161)(591)ط:المکتبۃ العصریۃ)(14)
2۔ عن الوليد بن جميع، عن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث(سنن أبی داؤد، (1/161)(592)، ط:المکتبۃ العصریۃ)(15)
3۔الوليد، عن جدتہ، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث الأنصاري(مسندأحمد:(45/253)،رقم الحديث:27283) (16)
4۔ عن الوليد بن جميع، عن ليلى بنت مالك، عن أبيها، وعن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة(صحیح أبن خزیمۃ(3/89)،(1676)،ط:المکتب الإسلامی)(17)
5۔ الوليد بن جميع , عن أمه , عن أم ورقة(سنن الدارقطنی(2/ 21)(1084)،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)(18)
یہ کل پانچ طرق ہوئے، ان میں سنن دارقطنی کی حدیث کے علاوہ باقی تمام طرق میں "تؤم أهل دارها" کی بات مطلق آئی ہے، یعنی حضور اکرم ﷺنے انہیں اہل خانہ کی امامت کا حکم دیا تھا،اب یہ اہل خانہ کون تھے؟ (مرد یا صرف عورتیں)
ابوداؤد کی حدیث میں اس کا ذکر وتعین نہیں ہے، صرف سنن دارقطنی کی مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے"وتؤم نساءها" کہ حضور اکرم ﷺنے ام ورقہ کو اپنے محلہ کی خواتین کی امامت کا حکم دیا تھا، مردوں کی امامت کا حکم نہیں دیا تھا۔او ر علامہ ابن خزیمہ نے ’’صحیح ابن خزیمہ‘‘میں’’باب إمامة المرأة النساء في الفريضة ‘‘ کا عنوان قائم کرکے اس طرف اشارہ کیا کہ ’’ أن تؤم أهل دارها في الفريضة‘‘ میں ’’ أھل دارھا‘‘سے مراد عورت کا صرف عورتوں کی امامت کرنا ہے۔(19)
جب ایک روایت میں اس کی قید آگئی، تو اب بقیہ تمام مطلق روایات کو اسی پر محمول کیا جائے گا، لہذا حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبیلے کی خواتین کی امامت کرتی تھی، مرد اس میں شریک نہیں ہوتے تھےاور شوافع وحنابلہ کے نزدیک عورتوں کی امامت عورتوں کے لئے جائز ہے، وہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں، احناف کے نزدیک عورتوں کی امامت عورتوں کے لئے بھی مکروہِ تحریمی ہے۔
مذكوره روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کا مدار ’’ولید بن جمیع ‘‘اوران کے استاذ ’’عبد الرحمن بن خلاد‘‘’’ولید بن جمیع ‘‘کی’’ دادی ‘‘ پرہے اور محدثین کرام ؒ نے ان پر کلام کیا ہے۔
علامہ منذری(م656ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ترجمہ:اس کی سند میں ’’ولید بن جمیع ‘‘ہےاور امام مسلم نے ان روایت نقل ہے (لیکن)ان کے بارے میں کلام ہے۔(مختصر سنن أبي داود:2/318،ط:مکتبۃ المعارف)( 20)
علامہ عقیلی(م٣٢٢ھ) فرماتے ہیں :ترجمہ: ولید بن وکیع کی روایت میں اضطراب ہے۔(الضعفاء للعقیلی :4/317(1918)،ط:دارالمکتبۃ العلمیۃ) (21)
علامہ ابن حجر عسقلانی (م 852 ھ) فرماتے ہیں :ترجمہ:اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن خلاد راوی ہے اور وہ مجہول الحال ہے۔التلخیص الحبیر:2/68(556)،ط: دارالکتب العلمیۃ) (22)
علامہ ابن القطان(م 628ھ) فرماتے ہیں:ترجمہ:اس حدیث کو صحیح قراردینا مستبعد ہے ،کیونکہ عبدالرحمن بن خلاد مجہول ہے اورولید کی دادی بھی اسی طرح ہے ،اس کی بھی اصل معلوم نہیں ہے۔(23) (بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام:5؍23،ط:دارطیبۃ)
علامہ ابولید الباجی (م474ھ)فرماتے ہیں :ترجمہ: یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے،جن پر اعتماد ضروری نہیں ہے۔(المنتقی :1/235،ط:دارالکتاب الاسلامی)(24)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عورت کا مرد کے لئے امام بننا قرآن، حدیث اور اجماع امت ہر ایک کے خلاف ہے اوراگر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیاجائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے ’’عورت کاعورتوں کی امامت کرنا‘‘ ثابت ہوگا، جبکہ’’عورت کاعورتوں کی امامت کرنا‘‘دوسرے دلائل واضح کی روشنی میں مکروہ تحریمی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) روح المعاني للعلامة الآلوسي: (3/23،ط:دارالکتب العلمیۃ)
شأنهم القيام عليهن قيام الولاة على الرعية بالأمر والنهي ونحو ذلك۔۔۔۔ ولذا خصوا بالرسالة والنبوة على الأشهر، وبالإمامة الكبرى والصغرى، وإقامة الشعائر كالأذان والإقامة والخطبة والجمعة

(2)سنن ابن ماجة:( 2/286،رقم الحديث:1081،ط: دارالجیل )ألا لا تؤمن امرأة رجلا

(3)صحيح لمسلم:رقم الحديث: 440، ط:دارإحیاء التراث العربی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير صفوف الرجال أولها، وشرها آخرها، وخير صفوف النساء آخرها، وشرها أولها»

(4)صحيح البخاري:،رقم الحديث: 871،ط:دارطوق النجاۃ)
عن أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: «صلى النبي صلى الله عليه وسلم في بيت أم سليم، فقمت ويتيم خلفه وأم سليم خلفنا»

(5) حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح:(ص:59،ط:دارالکتب العلمیۃ)
المرأة تخالف الرجل في مسائل۔۔۔۔ ولا تؤم الرجال

(6)الثمرالدانی شرح رسالۃابن أبی زید: (ص:148،ط:المکتبۃ الثقافیۃ)
ولا تؤم المرأة في فريضة ولا نافلة لا رجالا ولا نساء" وكما لا تؤم المرأة لا يؤم الخنثى المشكل فإن ائتم بهما أحد أعاد أبدا على المذهب سواء كان من جنسهما أولا۔۔۔ فاعلم أن الذكورة المحققة شرط في صحة الإمامة۔

(7)كتاب الام للإمام الشافعي: (1/191،ط:دارالمعرفۃ)
’’ولایجوز ان تکون امرأۃ امام رجل فی صلاۃ بحال ابداً‘‘۔

(8)المجموع شر ح المھذب للنووي:(4 /255،ط:دارالفکر)
واتفق أصحابنا على أنه لا تجوز صلاة رجل بالغ ولا صبي خلف امرأة حكاه عنهم القاضي أبو الطيب والعبد رى ولا خنثى خلف امرأة ولا خنثى لما ذكره المصنف وتصح صلاة المرأة خلف الخنثى وسواء في منع إمامة المرأة للرجال صلاة الفرض والتراويح وسائر النوافل هذا مذهبنا ومذهب جماهير العلماء من السلف والخلف رحمهم الله وحكاه البيهقي عن الفقهاء السبعة فقهاء المدينة التابعين وهو مذهب مالك وأبي حنيفة وسفيان وأحمد وداود

(9)المغني لابن قدامة الحنبلي: (2/146،ط:مكتبة القاهرة)
لنا قول النبي صلى الله عليه و سلم : [ لا تؤمن امرأة رجلا ] ولأنها لا تؤذن للرجال فلم يجز أن تؤمهم كالمجنون ۔

(10) الاستذكارلابن عبد البر:(2 /79،ط:دارالکتب العلمیۃ)
وأجمع العلماء على أن الرجال لا يؤمهم النساء".

(11)المحلی بالاثار:(2 /167،ط:دارالفکر)
ولا يجوز أن تؤم المرأة الرجل ولا الرجال, وهذا مما لا خلاف فيه

(12) إعلاء السنن :(3 /1284،ط: دارالفکر)
أما إمامة المرأة للرجال فمما اتفق الأئمة الأربعة على عدم صحتها۔۔۔الخ

(13)سنن أبی داؤد:، رقم الحدیث: 592،ط:المکتبة العصریة)
حدثنا الحسن بن حماد الحضرمي، حدثنا محمد بن فضيل، عن الوليد بن جميع، عن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث، بهذاالحديث، والأول أتم، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها، وأمرها أن تؤم أهل دارها، قال عبد الرحمن: فأنا رأيت مؤذنها شيخا كبيرا
أخرجه فی أحمدفي ’’مسندہ ‘‘(45/253)(27283)، وأبن خزیمة في ’’صحيحه‘‘ (3/89)،(1676) والطبراني في ’’ العجم الکبیر‘‘(25/134)(326)و الحاكم في ’’مستدركه’’(1/320)،(730) ،والبيهقي في ’’سننه الکبری‘‘(1/597)،(1909)،(5353)والدارقطني في ’’سننه‘‘(2/261(1506)

(14)سنن أبی داؤد:( 1/161)،رقم الحدیث:591،ط:المکتبة العصریة)
حدثنا الوليد بن عبد الله بن جميع، قال: حدثتني جدتي، وعبد الرحمن بن خلاد الأنصاري، عن أم ورقة بنت عبد الله بن نوفل الأنصارية، وفيه «وكانت قد قرأت القرآن فاستأذنت النبي -صلى الله عليه وسلم- أن تتخذ في دارها مؤذناً فأذن لها

(15) سنن أبی داؤد:( 1/161)،رقم الحدیث:592،ط:المکتبة العصریة)
عن الوليد بن جميع، عن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث، بهذا الحديث، والأول أتم، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها، وأمرها أن تؤم أهل دارها

(16) مسندأحمد:(45/253)،رقم الحديث:27283،ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا أبو نعيم، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثتني جدتي، عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث الأنصاري، وكانت قد جمعت القرآن، «وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد أمرها أن تؤم أهل دارها» ، وكان لها مؤذن، وكانت تؤم أهل دارها
أخرجه أسحاق بن رھویۃ في ’’مسنده‘‘(5/234(2381)، و الطبراني في ’’ العجم الکبیر‘‘(25/134)(326)،والبیھقي في ’’دلائل النبوۃ‘‘(6/381)،و الدارقطني في ’’سننه‘‘(2/261)(1506)، وأبو نعیم فی الحلیة’’(2/63)

(17)صحیح أبن خزیمۃ(3/89)،(1676)،ط:المکتب الإسلامی)
عن الوليد بن جميع، عن ليلى بنت مالك، عن أبيها، وعن عبد الرحمن بن خلاد، عن أم ورقة، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: «انطلقوا بنا نزور الشهيدة» ، وأذن لها أن تؤذن لها، وأن تؤم أهل دارها في الفريضة، وكانت قد جمعت القرآن

(18)سنن الدارقطنی(2/ 21)(1084)،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
الوليد بن جميع , عن أمه , عن أم ورقة , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أذن لها أن يؤذن لها ويقام وتؤم نساءها»

(19) المغني لابن قدامة الحنبلي: (2/146،ط:مكتبة القاهرة)
وحديث أم ورقة إنما أذن لها أن تؤم نساء أهل دارها، كذلك رواه الدارقطني. وهذه زيادة يجب قبولها، ولو لم يذكر ذلك لتعين حمل الخبر عليه؛ لأنه أذن لها أن تؤم في الفرائض، بدليل أنه جعل لها مؤذنا، والأذان إنما يشرع في الفرائض، ولا خلاف في أنها لا تؤمهم في الفرائض، ولأن تخصيص ذلك بالتراويح واشتراط تأخرها تحكم يخالف الأصول بغير دليل، فلا يجوز المصير إليه، ولو قدر ثبوت ذلك لأم ورقة، لكان خاصا بها، بدليل أنه لا يشرع لغيرها من النساء أذان ولا إقامة، فتختص بالإمامة لاختصاصها بالأذان والإقامة.

(20)مختصر سنن أبي داود:(2/318،ط:مکتبۃ المعارف)
في إسناده: الوليد بن جميع، وقد أخرج له مسلم، وفيه مقال.

(21)الضعفاء للعقیلی :(4/317(1918)،ط:دارالمکتبۃ العلمیۃ)
الوليد بن عبد الله بن جميع الزهري في حديثه اضطراب.

(22)التلخیص الحبیر:(2/68(556)،ط: دارالکتب العلمیۃ)
وفي إسناده عبد الرحمن بن خلاد وفيه جهالة.

(23) بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام:( 5؍23،ط:دارطیبۃ)
وأستبعد عليه تصحيحه، فإن حال عبد الرحمن بن خلاد مجهولة، وهو كوفي، وجدة الوليد كذلك لا تعرف أصلا

(24) المنتقی :(1/235،ط:دارالکتاب الاسلامی)
وهذا الحديث مما لا يجب أن يعول عليه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

aourat ki imamat kay jawaz say mutalliq hadees umm e ka jaiza or tehqeeq, Review and investigation of "Hadith Umm Waraqah" regarding the justification of the Imamat / leading the prayer of / by a woman

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees