سوال:
مفتی صاحب ! تقریبا دو سال پہلے میرے ایک دوست نے نیا کاروبار شروع کیا، اور مجھے آفر کی کہ میں اس کاروبار میں انویسٹ کروں، میں نے گھر والوں کا سونا فروخت کر کے اور کچھ رقم ساتھ شامل کر کے 14 لاکھ کی انویسٹ کردی۔
انویسٹ کرتے وقت دوست ہونے کی وجہ سے میں نے کوئی لکھت پڑھت نہیں کی، بس ایک ای میل دوست نے کردی کہ اس نے مجھ سے اتنی رقم لی ہے، میں اس وقت پاکستان سے باہر مقیم تھا، اس لیے چھٹی گزارنے کے بعد چلا گیا۔
اس دوران میرے دوست نے اپنے بھائی کو فائنانس ڈویزن میں لگایا اور کاروبار شروع کردیا، انہوں نے ہر ماہ تنخواہ کی مد میں ایک رقم لینا شروع کردی، میں چونکہ پاکستان میں نہیں تھا، تو مجھے کچھ نہیں دیا گیا۔
ایک سلیپنگ پارٹنر کے طور پر کام چلتا رہا، 6 ماہ بعد میں نے دوست سے پوچھنا شروع کیا تو وہ یہ کہہ ٹالتا رہا کہ ابھی کاروبار شروع ہوا ہے، کوئی منافع نہیں ہو رہا ہے، اس دوران انہوں نے سارا پیسہ ڈبو دیا، مجھے اس سارے عرصے اندھیرے میں رکھا گیا۔
جب میں پاکستان شفٹ ہوا، تو میں نے ان سے حساب مانگا، تو انہوں نے بتایا کہ کاروبار میں نقصان ہوگیا ہے، جب میں نے ان سے ڈیٹا اور ریکارڈ مانگا، تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔
اب میرا مدعا یہ ہے کہ انہوں نے انہوں نے دو سال منافع تو دور کی بات، میری اصل رقم بھی مجھے واپس نہیں دی اور نہ دینے کا ارادہ ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ غلطی ان کی طرف سے ہوئی اور نقصان میں مجھے برابر کا حصہ دار بنایا، جب کہ منافع میں کسی قسم کا حصہ نہیں دیا تو کیا ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ میں ان سے اپنی اصل رقم بغیر کسی سود اور منافع کے مانگ رہا ہوں، کیا میرا یہ مطالبہ کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں معاملات کی صفائی کی بہت تاکید آئی ہے٬ کسی شخص کو رقم دیتے اور لیتے وقت اس معاملے سے متلعق فریقین کو بنیادی معلومات کا ہونا ضروری ہے٬ تاکہ بعد میں کسی نزاع کی نوبت نہ آئے٬ محض اعتماد کی بجائے معاملات کو باقاعدہ تحریر میں لانے کی تاکید کی گئی۔ اگر معاملہ کرتے وقت شرعی اصولوں کا لحاظ نہ رکھا جائے تو وہی دشواریاں سامنے آتی ہیں، جن کا ذکر آپ نے سوال میں کیا ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں دوست کو کاروبار میں لگانے کیلئے رقم دی گئی جو کہ شرعا شراکت (Partnership) کی صورت ہے٬ لیکن اس میں فریقین کے نفع کا تناسب طے نہیں کیا گیا تھا٬ تو اب ایسی صورت میں نفع برابر برابر تقسیم ہوگا اور نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برادشت کرے گا٬ لہذا مذکورہ صورت میں اگر کام کرنے والے شریک (working partner) کی غفلت یا لاپرواہی کے بغیر نقصان ہوا ہو٬ تو ہر شریک اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان کا ضامن ذمہ دار ہوگا٬ لیکن اگر کسی ایک شریک کی غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے نقصان ہوا ہو٬ تو نقصان کی ذمہ داری اسی پر ہوگی٬ دوسرے شریک کو اپنا مکمل سرمایہ واپس لینے کا شرعا حق حاصل ہوگا٬ تاہم ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے مصالحت کی کوئی جائز صورت اختیار کر لی جائے٬ تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 282)
"یا ایہا الذین امنوا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ۔۔۔۔الخ
و قولہ تعالی: (النساء، الآیۃ: 128)
"فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا والصلح خیر۔۔۔۔الخ
درر الحكام: (461/3، ط: دار الجیل)
"وكل شرط لا يؤدي إلى جهالة الربح فهو باطل والمضاربة صحيحة كشرط الضرر والخسار على المضارب أو كشرطه على المضارب وعلى رب المال"
"ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا الربح مشترك بيننا يصرف إلى المساواة ولا يقال في هذه الصورة إن المضاربة فاسدة لجهالة الربح ؛ لأن لفظ (بين ) يدل على التنصيف والتشريك (الولوالجية )"
مجلة الأحكام العدلية: (المادة: 1411، ص: 272، ط: نور محمد)
يشترط في المضاربة أن يكون رأس المال معلوما كشركة العقد أيضا وتعيين حصة العاقدين من الربح جزءا شائعا كالنصف والثلث ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا الربح مشترك بيننا " يصرف إلى المساواة"
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز: (رقم المادۃ: 97)
"لیس لأحد أن یأخذ مال غیرہ بلا سبب شرعي"
کذا فی فتاوی جامعة الرشید کراتشي: رقم الفتوی: 57218
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی