سوال:
اگر کوئی شخص تہجد کی نیت سے نماز شروع کرے اور نیت کرنے کے بعد معلوم ہو کہ صبح صادق طلوع ہوچکی ہے اور فجر کا وقت داخل ہوچکا ہے، تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کسی شخص کا یہ گمان ہو کہ ابھی تہجد کا وقت باقی ہے اور وہ دو رکعت نماز تہجد کی نیت سے شروع کرے، اور نیت باندھنے کے بعد اسے صبح صادق طلوع ہونے کا علم ہو، تو اگر اس نے صبح صادق طلوع ہونے کے بعد نیت باندھی ہو، تو یہ دو رکعت فجر کی سنتیں شمار ہو جائیں گی، کیونکہ یہ دو رکعت فجر کے وقت میں ادا کی گئی ہیں اور اگر اس نے صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے نیت باندھی ہو اور نماز کے دوران صبح صادق طلوع ہوئی ہو، تو یہ نفل شمار ہوں گی، لہذا ان دو رکعتوں کو پورا کرلینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (374/1، ط: دار الفکر)
لو صلى تطوعا في آخر الليل فلما صلى ركعة طلع الفجر فإن الأفضل إتمامها؛ لأن وقوعه في التطوع بعد الفجر لا عن قصد ولا ينوبان عن سنة الفجر على الأصح
الفتاوی الھندیۃ: (112/1، ط: دار الفکر)
لوصلی رکعتین وھو یظن أن اللیل باق فاذا تبین أن الفجر قد کان طلع … قال المتأخرون یجزیہ عن رکعتی الفجر ذکر الشیخ الامام الاجل شمس الائمۃ الحلوانی فی شرح کتاب الصلاۃ ظاھر الجواب أنہ یجزیہ عن رکعتی الفجر لان الاداء حصل فی الوقت۔
کتاب النوازل: (587/4، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی