سوال:
السلام علیکم، ایک ساتھی کا میڈیسن ہول سیل کا کاروبار ہے، مختلف گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسپتال والے ان سے میڈیسن خریدتے ہیں، لیکن اسپتال کے مختص نمائندوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ آپ ہمیں ذاتی طور پر کچھ کمیشن دیا کریں تو ہم پھر آپ سے میڈیسن لیا کرینگے، ورنہ ہم کسی اور سے لے لیا کرینگے، تقریباً مارکیٹ میں یہی طریقہ چل رہا ہوتا ہے۔
اب اس کمیشن کی دو صورتیں ہوتی ہیں کہ آپ اپنے منافع سے اس کو دینگے، لیکن وہ کہتا ہے کہ منافع اتنا نہیں ہوتا کہ ہم اس کو بھی دیا کریں۔ پھر وہ اس طرح کرتے ہیں کہ اسپتال کے میڈیسن میں منافع کا مارجن تھوڑا بڑھا دیتے ہیں، تاکہ منافع زیادہ ہو، جس سے ہم نمائندہ کی ڈیمانڈ شدہ رقم بھی ادا کر سکیں۔
ہول سیل والا ساتھی پوچھ رہا کہ اس قسم کی ڈیلنگ ہمارے لیے شرعی طور کیسی ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ اگر یہ اس طرح کی ڈیلنگ ہمارے لئے صحیح نہیں، تو اسکا متبادل کیا طریقہ کار ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کمیشن ایجنٹ نہیں ہے، بلکہ وہ کسی ادارے کا ملازم ہے اور وہ ادارہ اس شخص کو اپنے ادارے میں استعمال ہونے والی اشیاء کی خریداری کے لیے ذمہ داری سونپتا ہے، تو وہ شخص اس ادارے کا وکیل بالشراء (خریداری کا وکیل) ہوتا ہے اور وکیل بالشراء خریداری کے معاملے میں امین ہوتا ہے، اگر دکاندار قیمت میں کمی کرتا ہے یا نفع بصورت کمیشن دیتا ہے، تو وہ نفع اور کمیشن اس ادارے کا حق ہے، جس نے اس شخص کو وکیل بالشراء بنایا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں دوائیوں کی خریداری کے وکیل کا اپنے اسپتال سے خفیہ طور پر، دکاندار سے کمیشن کا مطالبہ کرنا خیانت اور دھوکا دہی کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے اور دکاندار کا اس (وکیل بالشراء) کے کمیشن کی خاطر قیمت میں اضافہ کرنا، اس کے ساتھ گناہ میں معاون بننے کے زمرے میں آتا ہے۔
ہاں ! اگر وکیل بالشراء خریداری سے پہلے اپنے ادارے کو صورتحال سے آگاہ کر کے اپنا کمیشن ان سے طے کر لے، تو اس صورت میں گنجائش ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: (الباب الأول في بیان بعض الأحکام العمومیۃ المتعلقۃ بالأمانات، المادۃ: 768، 236/2)
"المال الذي قبضہ الوکیل والرسول من جہۃ الوکالۃ ومن جہۃ الرسالۃ أمانۃ في یدہما".
و فيہ ایضاً: (المادۃ: 1436، ص: 784)
"المال الذي قبضہ الوکیل بالبیع والشراء وایفاء الدین واستیفائہ وقبض العین من جہۃ الوکالۃ في حکم الودیعۃ في یدہ".
مجمع الأنھر: (باب الوکالۃ بالبیع و الشراء، 319/3)
"(ولیس للوکیل بشراء عین شراؤہ لنفسہ) ولا لمؤکل آخر لأنہ یؤدي إلی تغریر الآمر من حیث أنہ اعتمد علیہ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی