سوال:
میں ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور پارٹ ٹائم آن لائن بزنس کرتا ہوں، اپنے والد صاحب کی دکان سے سامان گھر لاکر اس کی تصویر بناتا ہوں، پھر اس کو ریسیلر اور مختلف فارم جیسے کہ انسٹاگرام، فیس بک اور دراز پر مارکیٹنگ کرتا ہوں۔
یہ مال میرا والد کا ہوتا ہے اور میں صرف تصویر اور مارکیٹنگ کرکے ان سے منافع لیتا ہوں۔
اکثر ریسیلر (Reseller) ہم سے یہ مال ہماری دکان سے وصول کر کے آگے بیچ دیتے ہیں اور ہماری دکان سے ہمیں منافع دے دیتے ہیں۔
جبکہ کچھ ریسیلر (Reseller) ایسا بھی کرتے ہیں کہ ہمارے مال کی مارکیٹنگ کرکے ہمیں بتا دیتے ہیں كہ آپ فلاں فلاں ایڈریس پر مال بھیج کر ان سے اتنی رقم وصول کرلیں اور ہمارا منافع ہمیں دیدیں اور اپنی رقم خود رکھ لیں۔
اِس حوالہ سے چند باتیں پوچھنا تھیں:
1 . اگر پارٹی نے مال لینا سے انکار کر دیا یا مال واپسی کر دیا تو وہ مال کس کا ہوگا اور ایسے میں ڈلیوری کمپنی جو رقم لے گی وہ ہم ادا کریں گے یا ریسیلیر (Reseller) ادا کرے گا؟
2 . اگر ڈلیوری والے نے مال خراب کر دیا تو وہ کس کا نقصان شمار ہوگا؟
3۔ اگر ہم خود کسی کی بروڈکاسٹ میں شامل ہو کر اس کی تصویروں کو مارکیٹ کریں اور ان کا مال بکوا کر منافع حاصل کریں تو کیسا ہے؟
اور اگر ہم کسی اور کی دکان سے اِس طرح کا معاہدہ کریں کہ ہم ان سے مال لے کر اس کی تصویر بنا کر مال واپس کردیں یا اس کو رکھ لیں، اور آرڈر آنے کی صورت میں گاہک ان کی دکان پر بھیج دیں اور ان سے معاہدہ کرلیں کہ ہماری تصویر سے بکنے والے مال پر ہمیں منافع ملے گا، یہ کیسا ہے؟
جواب: مذکورہ صورت میں مال کی تصویر کے ذریعے تشہیر کرکے اسے فروخت کرنا شرعا درست ہے٬ نیز کسی اور (Reseller وغیرہ)کے ذریعے مال فروخت کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اس تیسرے شخص کو مال باقاعدہ فروخت کیا جائے٬ ایسی صورت میں قبضہ کے بعد وہ مال اسی شخص (Reseller) کی ملکیت ہوگا اور اسی کے ذمہ داری (Risk) میں ہوگا٬ بعد میں اگر گاہک مال لینے سے انکار کردے یا راستے میں کوئی نقصان ہوجائے٬ تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہوگی٬ بلکہ وہی شخص (Reseller) اس کا ذمہ دار ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ تیسرا شخص محض ایجنٹ کے طور پر کام کررہا ہو٬ تو ایسی صورت میں مال کی ملکیت اور راستے کا خطرات کی ذمہ داری(Risk) آپ کی ہوگی٬ گاہک کے انکار کرنے یا راستے میں مال خراب ہونے کی صورت میں کمیشن ایجنٹ ذمہ دار نہیں ہوگا۔
نیز اگر آپ کسی کے مال کی تشہیر کرنے اور بکوانے پر طے شدہ اجرت وصول کریں تو یہ معاملہ جائز ہے٬ بشرطیکہ اس میں کوئی اور غیر شرعی خرابی نہ پائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ، 63/6، ط: سعيد)
’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی