سوال:
اگر میاں اور بیوی گھر میں جماعت سے نماز پڑھیں، تو کیا میاں بیوی کی جماعت میں اذان اور اقامت کہی جائے گی اور اذان و اقامت کون کہے گا؟
جواب: اگر کبھی ضرورت کی وجہ سے شوہر گھر میں بیوی کے ساتھ مل کر جماعت کرائے اور محلہ کی اذان ہوچکی ہو، تو محلہ کی اذان پر اکتفا کرنا بھی کافی ہے اور اذان و اقامت کہنا ضروری نہیں ہے، تاہم گھر میں اگر جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے، تو اذان و قامت دونوں یا کم از کم صرف اقامت کہنا افضل ہے، اور صرف شوہر اذان و قامت کہے گا، بیوی نہیں کہے گی، کیونکہ عورت کے لئے اذان و اقامت کہنا مکروہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
معارف السنن: (287/2)
ثم من فاتتہ الجماعۃ فی مسجدہ لہ أن یصلّی فی مسجد حیہ منفرداً أو یأتی بیتہ فیجمع بأھلہ ویصلی بھم۔
رد المحتار: (393/1، ط: دار الفکر)
ثم اعلم انہ ذکر فی الحاوی القدسی من سنن المؤذن کونہ رجلا عاقلا، صالحاً عالما بالسنن والأوقات… وأنہ یکرہ أذان المرأۃ والصبی العاقل ویجزی حتی لا یعاد لحصول المقصود وھو الاعلام و روی عن الامام انہ تستحب اعادۃ أذان المرأۃ اھ۔
خلاصۃ الفتاویٰ: (48/1)
ولیس علی النساء أذان ولا إقامۃ… وللرجال یکرہ اداء المکتوبۃ بالجماعۃ فی المسجد بغیر اذان واقامۃ ولا یکرہ فی البیوت والکروم والضیاع فإن ترکوا الاذان والإقامۃ جاز۔
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن کراتشي: رقم الفتوی: 144105201054
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی