سوال:
مفتی صاحب ! میری 30 ہزار تنخواہ ہے اور گھر کی ضروریات میں پوری تنخواہ خرچ ہوجاتی ہے، کچھ بھی نہیں بچتا، بیوی کے پاس ایک تولہ سونا موجود ہے اور ایک تولہ سونا اس نے کسی کوقرضہ دیا ہے، لیکن جس کوقرضہ دیا ہے وہ 6 ماہ تک اس کو واپس نہیں کرسکتا اور اس کے علاوہ 15000 روپے نقد بھی موجود ہیں، توکیا قربانی بیوی پر واجب ہوگی یا مجھ پر یا دونوں پر علیحدہ علیحدہ یا ایک قربانی دونوں کے لئے کافی ہوگی یا دونوں پر واجب نہیں ہوگی؟ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں
جواب: یاد رہے کہ قربانی صاحبِ نصاب پر واجب ہے، یعنی جس مسلمان کی ملکیت میں عید الاضحی کے دنوں میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر ضرورت سے زائد رقم یا کوئی چیز ہو، تو اس پر قربانی واجب ہوتی ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر عید الاضحی کے دنوں میں آپ کی اہلیہ کی ملکیت میں سونے کے ساتھ کچھ رقم یا ضرورت سے زائد سامان ہو، اور ان کی کل مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو، تو آپ کی اہلیہ پر قربانی واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المحیط البرھانی: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع..... أو لغيرها فإنها.... في داره.
وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية۔۔۔۔۔۔
وفي «الأجناس» : وإن كان عنده حنطة قيمتها مائتا درهم يتجر بها، أو ملح قيمتها مائتا درهم، أو قصار عنده صابوت أو أشنان قيمتها مائتا درهم فعليه الأضحية.
الفتاوی الھندیة: (292/5، ط: دار الفکر)
(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی