سوال:
السلامُ علیکم، مفتی صاحب ! کیا مندرجہ ذیل حدیث صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو اس میں صحابہ سے کیا مراد ہے؟ وضاحت مطلوب ہے۔
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی، پھر وہ حوض (کوثر) سے دور کر دئیے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا، ”اے میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، ”تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں۔ یہ لوگ (دین سے) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے۔(صحيح البخاری، رقم الحدیث:6585)
دنیا میں صحابیت کا شرف پانے والا شخص بھی اگر رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف چلے گا تو اللہ سبحانہ وتعالی اسے کوثر دکھا کر واپس پھیر دے گا، جس سے اس کی محرومی کی حسرت میں اضافہ ہو جائے گا۔ان میں وہ لوگ شامل ہیں، جو آپ ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے، اور جن کی طرف سورة التوبة کی آیت نمبر 101 میں بھی اشارہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل میں استقامت عطا فرمائے۔ آمینارہ ہے۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت میں "اصحابی" سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت ہرگز مراد نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کا کوئی فرد مرتد نہیں ہوا ، اور اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے ایمان کو "معیارحق "اوران کے ایمان کو امت مسلمہ کےایمان کی کسوٹی قراردیا(۱) اور جناب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی ساری جماعت کو بلااستثناء آسمان ہدایت کے ستارے فرمایا اور ان کے بارے میں زبان درازی سے منع فرمایا۔(۲) اس روایت كاترجمہ اورتشریح مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا :
”قیامت کے دن میرے صحابہ میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی، پھر وہ حوض(کوثر) سے دور کر دئیے جائیں گے، میں عرض کروں گا اے میرے رب! یہ تو میرےاصحاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نےآپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں گھڑ لی تھیں؟ یہ لوگ (دین سے) الٹے قدموں واپس لوٹ گئے تھے۔ (صحيح البخارى،حدیث نمبر: 6585،ط: دارطوق النجاۃ)(۳)
تشریح:
اس حدیث میں’’اصحاب‘‘ سے کون مراد ہیں ؟ اس کو سمجھنے سے پہلے چند باتوں کا جاننا اور سمجھنا ضروری ہے:
۱۔ صحابی کسے کہتے ہیں؟
علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ(م 852ھ) فرماتے ہیں :
صحابی ہر وہ مسلمان ہے،جس نےایمان کی حالت میں جناب رسول ا للہ ﷺ سے شرفِ ملاقات حاصل کیا اور اسلام ہی پر اس کا انتقال ہوا ،آپ ﷺسے شرف ملاقات کرنے والوں میں ان صحابہ کا بھی شمار ہے،جن کی مجالست (آپ ﷺکے ساتھ اٹھنا،بیٹھنا) زیادہ رہا اور ان کا بھی شمار ہے،جن کو اس کا موقع کم ملا،(اسی طرح) وہ بھی (صحابہ کی جماعت میں شمار ہوگا)، جس نے آپﷺ سے روایت نقل کی اور وہ بھی جس نے روایت نقل نہیں کی ،(اسی طرح) وہ بھی جس نے آپﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کیا ،اور وہ بھی جس کو اس کا موقع نہیں ملا،(اسی طرح) وہ بھی جس نے آپﷺ کو دیکھا ،لیکن مجالست نہ ہوسکی اور وہ بھی جو آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،لیکن کسی عارض(مثلاً نابینا ہونے) کی وجہ سے آپﷺ کے چہرہ انور کو نہ دیکھ سکا۔(۴)
۲۔ سارے کے سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین عادل ہیں۔
جمہور اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سارے کے سارے چھوٹے ہوں یا بڑے،حضور ﷺکی زیارت و ملاقات کا شرف انہیں جس حال میں بھی حاصل ہوا ہو، حضورﷺ کی صحبت میں انہوں نے ایک دو گھڑیاں گزاری ہوں یا چند سال ،اور خواہ فتنہ و فساد کے زمانے سے پہلے وفات پاچکے ہوں یا اس زمانے میں رہے ہوں ،باہمی اختلافات میں کسی ایک طرف وابستہ ہوں یا نہ ہوں ،سب کے سب عادل اور معتمد ہیں ،ان کےحق میں قرآنی تصریحات ،نبوی ارشادات اور دین کی نقل و حفاظت میں ان کے تو سط اور شرکت کرنے ،نیز ان کو حاصل مرتبہ و شرافت سب کا یہی تقاضا ہے۔(۵)
مذکورہ بالا روایت میں "اصحابی" سے کیا مراد ہے؟
مذکورہ بالا روایت میں ذکرکردہ بات کئی روایات میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے، ان روایات کے مجموعے پر غور کرنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ بالا روایت میں "اصحابی" سے کون لوگ مراد ہیں؟
امام بخاری ؒ (م256 ھ)نے ایک روایت نقل کی ہے،جس میں ہے :
أنا على حوضي أنتظر من يرد علي، فيؤخذ بناس من دوني، فأقول: أمتي، فيقال: لا تدري، مشوا على القهقرى(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 7048)
ترجمہ:
’’( قیامت کے دن) میں اپنے حوض پر ہوں گا، اتنے میں کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے،ان کو فرشتے گرفتار کر لیں گے ، میں کہوں گا :یہ تو میرے امتی ہیں،جواب ملے گا آپ نہیں جانتے کہ یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے‘‘۔
اس روایت میں ’’بناس ‘‘ اور ’’امتی ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔
بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے :
قال: " أنا فرطكم على الحوض، وليرفعن معي رجال منكم۔۔۔(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 7049)
ترجمہ:
جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ میں حوض کوثر پر تم لوگوں کا پیش خیمہ ہوں گا، اور تم میں سے کچھ لوگ میرے پاس لائے جائیں گے‘‘۔
اس حدیث میں لفظ "رجال منکم" ہے ۔
بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے :
وإنه سيجاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال۔(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 6526)
ترجمہ:
’’میری امت کے بہت سے لوگ لائیں جائیں گے،جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے‘‘۔
اس روایت میں الفاظ’’ برجال من امتی ‘‘ کے آئے ہیں ۔
ان تمام روایات کو سامنے رکھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال میں ذکرکردہ روایت میں "اصحابی"سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت ہرگز مراد نہیں ہے ،اور مسلم شریف کی ایک روایت سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے۔
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ قبرستان تشریف لائے اور فرمایا :سلامتی ہو تم پر مومنوں کے گھر، ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ ہم اپنے دینی بھائیوں کو دیکھیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !کیا ہم آپ ﷺ کے بھائی نہیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں ، جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے ۔صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے ،جو ابھی تک نہیں آئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :بھلا تم دیکھو اگر کسی شخص کی سفید پیشانی والے سفید پاؤں والے گھوڑے سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے پہچان نہ لے گا ،صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین )نے عرض کیا :کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ جب آئیں گے تو وضو کے اثر کی وجہ سے ان کے چہرے ہاتھ اور پاؤں چمکدار اور روشن ہوں گے اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا اور سنو بعض لوگ میرے حوض سے اس طرح دور کئے جائیں گے ، جس طرح بھٹکا ہوا اونٹ دور کر دیا جاتا ہے، میں ان کو پکاروں گا، ادھر آؤ ،تو حکم ہوگا کہ انہوں نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد دین کو بدل دیا تھا، تب میں کہوں گا دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ۔(صحىح مسلم ،حديث نمبر:249،ط:داراحىاء التراث العربى)(۶)
اس روایت کے الفاظ میں غور کیا جائے ،تو واضح ہوجاتا ہے کہ سوال میں ذکرکردہ روایت میں "اصحابی"سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت ہرگز مراد نہیں ہے،کیونکہ اس روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اپنی امت کے ان لوگوں کو وضو کے اعضاء کی چمک سے پہچانیں گے، اب اگر اصحاب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے تو یہ بالکل سیاق کے خلاف ہے ، کیونکہ نبی کریمﷺ اپنے اصحاب کو بخوبی چہروں سے پہچانتے تھے کہ یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ،یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں ،یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا صحابی کایہ فرمانا کہ آپ کیسے پہچانیں گے؟ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصحاب سے مراد "امتی" ہیں۔
مزید اگر ہم غور کریں تو " لغت" میں بھی اصحاب کا مطلب صرف صحابہ کرام نہیں، بلکہ اصحاب کا مطلب "اتباع کرنے والے " ہیں، یعنی قیامت تک جو شخص نبی کریمﷺ کی اتباع کرنے والا ہو گا ، وہ آپ کے اصحاب (یعنی امتی) میں ہو گا۔
ان تمام روایات کے پیش نظر علامہ نووی ؒ نے "اصحابی" سے کون مراد ہیں ،اس بارے میں تین اقوال نقل فرمائے ہیں:
۱۔منافق اور مرتدین مراد ہیں ،جن کو چمکتی پیشانیوں کے ساتھ اٹھا یا جائے گا ،آپ ﷺ ان کی چمکتی پیشانیوں کو دیکھ کر ان کو پکاریں گے،آپ ﷺ سے کہا جائے یہ وہ لوگ نہیں ہیں ،جن کے بارے میں آپ ﷺ سے وعدہ کیا گیا ہے ،ان لوگوں نے آپ کے بعد دین کو بدل دیا، یعنی جو اسلام انہوں نے ظاہرکیاتھا،اس پر ان کی موت نہیں ہوئی۔
۲۔ اس سے مجرم اور اہل بدعت مراد ہیں، جو حد کفر کو نہیں پہنچے، آخر کسی وقت ان کی نجات ہو جائے گی۔
۳۔ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔(۷)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م 852ھ)نے ’’ فتح الباری شرح البخاری‘‘ میں لکھا ہے :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کوئی بهی مرتد نہیں ہوا،البتہ جٹ قسم کے بدووں کی ایک جماعت ضرور مرتد ہوئی ،جن کی دین میں کوئی نصرت نہیں تهی اور یہ بات مشہور صحابہ میں موجب قدح نہیں.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بصیغہ تصغیر اُصَیْحَابِیْ ( میرے چند اصحابی) فرمانا مرتدین کی تعداد کی قلت کوواضح کرتا ہے۔(۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱) القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 137)
فان امنوا بمثل امنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ہم فی شقاق ،فسیکفیکھم اللہ و ہو السمیع العلیمo
(۲) جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر: (2/925) رقم الحدیث: 176،، ط: دار ابن الجوزي)
عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم»
سنن الترمذي:(5/696)،رقم الحديث: 3862،ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
عن عبد الله بن مغفل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «الله الله في أصحابي، لا تتخذوهم غرضا بعدي، فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذى الله، ومن آذى الله فيوشك أن يأخذه
أيضا: (5/697)،رقم الحديث: 3866)
عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا رأيتم الذين يسبون أصحابي فقولوا: لعنة الله على شركم
(۳)صحیح البخاری(8/120،رقم الحدیث : 6585،ط: دارطوق النجاۃ)
عن ابي هريرة، انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يرد علي يوم القيامة رهط من اصحابي، فيحلئون عن الحوض، فاقول: يا رب، اصحابي، فيقول:" إنك لا علم لك بما احدثوا بعدك، إنهم ارتدوا على ادبارهم القهقرى".
(۴)الاصابة فی تمییز الصحابة : (1/158، ط: دار الکتب العلمیة)
وأصح ما وقفت عليه من ذلك [أن] الصحابي: من لقي النبي صلى الله عليه وسلم مؤمنا به، ومات على الإسلام، فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت، ومن روى عنه أو لم يرو، ومن غزا معه أو لم يغز، ومن رآه رؤية ولو لم يجالسه، ومن لم يره لعارض كالعمى.
(۵)تدريب الراوي:(5/177۔178،ط:داراليسر)
الصحابة كلهم عدول من لابس الفتن وغيرهم بإجماع من يعتد به
(۶) صحیح لمسلم:( 1/218)، رقم الحدیث : 249، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى المقبرة، فقال: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون، وددت أنا قد رأينا إخواننا» قالوا: أولسنا إخوانك؟ يا رسول الله قال: «أنتم أصحابي وإخواننا الذين لم يأتوا بعد» فقالوا: كيف تعرف من لم يأت بعد من أمتك؟ يا رسول الله فقال: «أرأيت لو أن رجلا له خيل غر محجلة بين ظهري خيل دهم بهم ألا يعرف خيله؟» قالوا: بلى يا رسول الله قال: " فإنهم يأتون غرا محجلين من الوضوء، وأنا فرطهم على الحوض ألا ليذادن رجال عن حوضي كما يذاد البعير الضال أناديهم ألا هلم فيقال: إنهم قد بدلوا بعدك فأقول سحقا سحقا "
(۷)شرح النووي علی مسلم: (3/137، ط: دار احیاء التراث العربی)
هذا مما اختلف العلماء في المراد به على أقوال أحدها أن المراد به المنافقون والمرتدون فيجوز أن يحشروا بالغرة والتحجيل فيناديهم النبي صلى الله عليه وسلم للسيما التي عليهم فيقال ليس هؤلاء مما وعدت بهم إن هؤلاء بدلوا بعدك أي لم يموتوا على ما ظهر من إسلامهم والثاني أن المراد من كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم ثم ارتد بعده فيناديهم النبي صلى الله عليه وسلم وإن لم يكن عليهم سيما الوضوء لما كان يعرفه صلى الله عليه وسلم في حياته من إسلامهم فيقال
ارتدوا بعدك والثالث أن المراد به أصحاب المعاصي والكبائر الذين ماتوا على التوحيد وأصحاب البدع الذين لم يخرجوا ببدعتهم عن الإسلام وعلى هذا القول لا يقطع لهؤلاء الذين يذادون بالنار بل يجوز أن يزادوا عقوبة لهم ثم يرحمهم الله سبحانه وتعالى فيدخلهم الجنة بغير عذاب قال أصحاب هذا القول ولا يمتنع أن يكون لهم غرة وتحجيل ويحتمل أن يكون كانوا في زمن النبي صلى الله عليه وسلم وبعده لكن عرفهم بالسيما۔
(۸)فتح الباري : (11/385، ط: دار المعرفۃ)
وقال الخطابي لم يرتد من الصحابة أحد وإنما ارتد قوم من جفاة الاعراب ممن لانصرة له في الدين وذلك لا يوجب قدحا في الصحابة المشهورين ويدل قوله أصيحابي بالتصغير على قلة عددهم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی