عنوان: غصہ کی حالت میں تین طلاق دینا(7847-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! پہلے ہمیں یہ لگتا تھا کہ اگرغصے میں طلاق دی جائے، تو طلاق نہیں ہوتی، پھر کسی نے یہ بتایا کہ غصے میں دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس سے پہلے میں نے یہ بات کبھی نوٹ نہیں کی کہ میرے شوہر نے مجھے کتنی دفعہ طلاق دی ہے؟ شاید پہلے سال ایک، پھر دوسرے سال میسج کے ذریعے طلاق دی اور پھر ایک سال بعد میسج پر تین طلاق دی، اور کہا کہ میں نے غصے میں دی ہیں، پھر میرے سامنے پانچ دفعہ طلاق دی کہ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں، کیا یہ طلاقیں واقع ہو گئی ہیں؟ اگر ہاں تو کیا رجوع کا کوئی طریقہ ہے؟

جواب: واضح رہے کہ طلاق چاہے غصہ میں دی جائے یا عام حالت میں، ہر صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوگئی ہے، اور رجوع کا حق ختم ہو گیا ہے۔
تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے، جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے یا انتقال کر جائے، تو عدت گزرنے کے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ۔۔۔۔الخ

سنن النسائي: (کتاب الطلاق، رقم الحدیث: 3401)
"عن محمود بن لبید قال:أخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً، فقام غضباناً۔ ثم قال: أیلعب بکتاب اللّٰہ وأنا بین أظہرکم ،حتی قام رجل وقال: یا رسول اللّٰہ ألا أقتلہ؟".

ترجمه:
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیں، آپ اس پر غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میری موجودگی میں اللہ تعالی کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے ؟ حتی کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اُس نے کہا کہ حضرت !کیا اس شخص کو قتل کردوں؟
اس حدیث کو حافظ ابن القیم، علامہ ماردینی، حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمهم الله تعالى نے سندا صحیح قرار دیا ہے۔

شرح النووی: (70/10، ط: دار احیاء التراث العربی)
وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث۔

فتح القدیر: (کتاب الطلاق، 469/3، ط: دار الفکر)
وقال العلامة ابن الہمام رحمه الله تعالى:
ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً".

رد المحتار: (233/3، ط: دار الفکر)
وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.
قال في الفتح بعد سوق الأحاديث الدالة عليه: وهذا يعارض ما تقدم، وأما إمضاء عمر الثلاث عليهم مع عدم مخالفة الصحابة له وعلمه بأنها كانت واحدة فلا يمكن إلا وقد اطلعوا في الزمان المتأخر على وجود ناسخ أو لعلمهم بانتهاء الحكم لذلك لعلمهم بإناطته بمعان علموا انتفاءها في الزمن المتأخر وقول بعض الحنابلة: توفي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عنهم أو عن عشر عشر عشرهم القول بوقوع الثلاث باطل؟ أما أولا فإجماعهم ظاهر لأنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر حين أمضى الثلاث، ولا يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف تسمية كل في مجلد كبير لحكم واحد على أنه إجماع سكوتي.
وأما ثانيا فالعبرة في نقل الإجماع نقل ما عن المجتهدين والمائة ألف لا يبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة، والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم وقد ثبت النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف - {فماذا بعد الحق إلا الضلال}

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1021 Jun 22, 2021
ghussay ki halat mai teen talaq dena, Giving triple talaq / three divorce in a state of anger

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.