سوال:
ہماری ایک علاقہ میں تشکیل ہوئی، جہاں کئی مساجد تھیں جن میں جماعت سے نماز ہوتی تھی، لیکن اذان صرف مرکزی مسجد سے دی جاتی تھی۔ کیا شریعت میں ایک مسجد کی اذان دیگر قریبی مساجد کے لیے کافی ہوجاتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ محلہ کی ہر مسجد میں علیحدہ علیحدہ اذان دینا مسنون ہے، ایک مسجد کی اذان دوسری مسجد کے لئے کافی نہیں ہوگی، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں محلہ کی باقی مساجد کا صرف مرکزی مسجد کی اذان پر اکتفاء کرنا خلافِ سنت اور مکروہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (394/1، ط: دار الفکر)
(وکرہ ترکھما) معا (لمسافر) ولو منفرداً (وکذا ترکھا) لا ترکہ لحضور الرفقۃ (بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (فی بیتہ بمصر) او قریۃ لھا مسجد۔۔الخ
(قولہ ولو بجماعۃ) وعن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ: لو اکتفوا بأذان الناس اجزاءھم وقد أساءوا ففرق بین الواحد والجماعۃ فی ھذہ الروایۃ بحر۔۔الخ
الفتاوی الھندیۃ: (54/1، ط: دار الفکر)
ویکرہ اداء المکتوبۃ بالجماعۃ فی المسجد بغیر اذان وإقامۃ۔
الفتاوى الهندية: (1 / 53)
’’الأذان سنة لأداء المكتوبات بالجماعة، كذا في فتاوى قاضي خان. وقيل: إنه واجب، والصحيح أنه سنة مؤكدة‘‘.
الدر المختار مع رد المحتار: (1 / 103)
’’وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأنّ تركها استخفاف بالدين‘‘.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی