سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !ایک بات پوچھنی تھی کہ ایک لڑکا ہے، اس کی بیوی قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا کر کہتی ہے کہ اس کے شوہر نے لڑائی کے دوران صریح الفاظ میں تین مرتبہ باقاعدہ کہہ کر طلاق دی ہے، لیکن لڑکی کے پاس اس بات پر کوئی گواہ نہیں ہے، جبکہ لڑکا قرآن کی قسم کہہ کر کہتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے۔ اس صورت حال میں کس کی بات شرعی طور پر قابل قبول ہوگی؟
لڑکا صلح کرکے واپس گھر بسانا چاہتا ہے، جبکہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ اس نے مجھے فارغ کر دیا ہے، میں اس آدمی کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتی ہوں۔
نیز اس کی بھی وضاحت فرمادیں کہ عورت کے حق مہر میں دس مرلہ پلاٹ، پانچ تولہ سونا اور ناراضگی کی صورت میں کچھ ماہانہ خرچہ ہے تو طلاق کی صورت میں مہر کی کیا صورتحال ہوگی؟ شوہر مہر دینے پر آمادہ نہیں، جبکہ لڑکی والے مہر کا مطالبہ کررہے ہیں، ورنہ بات جنگ وجدل خونریزی اور قتل وغارت تک جانے کا امکان ہے۔
ان دونوں میاں بیوی کی تین سال کی ایک بچی بھی ہے، تو شرعا اس بچی کی تربیت اور اخراجات کس کے ذمے ہے؟
جواب: 1۔ اگر طلاق کے بارے میں میاں بیوی دونوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو شرعی حکم یہ ہے کہ بیوی شوہر کے طلاق دینے پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کرے، اگر بیوی شرعی گواہ پیش کردے تو طلاق واقع ہو جائے گی، اور اگر بیوی گواہ پیش نہ کرسکے تو شوہر سے طلاق نہ دینے پر قسم لی جائے گی، اگر اس نے طلاق نہ دینے پر قسم اٹھا لی تو اس صورت میں ظاہری فیصلہ شوہر کے حق میں ہوگا، اور طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر عورت کو تین دفعہ طلاق دینے کا یقین ہو تو وہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دے، اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے۔
2۔واضح رہے کہ مہر بیوی کا ایسا حق ہے، جو اس کی رضامندی کے بغیر معاف نہیں ہوسکتا ہے، اس کا ادا کرنا شوہر پر بہر صورت لازم اور ضروری ہے، اور یہ طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہے، اسی لیے اگر مہر ادا کئے بغیر شوہر انتقال کر جائے تو تجہیز و تکفین کے بعد ترکہ کی تقسیم سے پہلے بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا، لہذا صورت مسئولہ میں شوہر کے ذمہ بہر صورت بیوی کو مہر ادا کرنا لازم اور ضروری ہے۔
3۔ طلاق کی وجہ سے اگر میاں بیوی دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے، تو ماں لڑکے کو سات برس اور لڑکی کو نو برس تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ کسی ایسے آدمی سے جو بچوں کا غیر محرم ہو، شادی نہ کرلے، اور ماں کی اخلاقی حالت بھی خراب نہ ہو، جس سے بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہو۔
4۔ صورت مسئولہ میں بچی کا نان نفقہ (خرچہ) باپ پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم ہے، اب والد چاہے تو خود خرچ کرے یا کسی کو اپنا وکیل بنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء: الآیۃ: 4)
وَآتُوْا النِّسَآئَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً، فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ہَنِیْئًا مَرِیْئًاo
سنن أبی داؤد: (باب من أحق بالولد، 317/1، ط: مکتبۃ حقانیۃ)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي.
سنن الدار قطنی: (باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت، رقم الحدیث: 4466)
عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ۔
رد المحتار: (251/3، ط: دار الفكر)
والمرأۃ کالقاضي إذاسمعته أو أخبرها عدل لا یحل لها تمکینه … وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اه
الدر المختار: (564/3، ط: دار الفكر)
والحاضِنَةُ) أُمًّا، أوْ غَيْرَها (أحَقُّ بِهِ) أيْ بِالغُلامِ حَتّى يَسْتَغْنِيَ عَنْ النِّساءِ وقُدِّرَ بِسَبْعٍ وبِهِ يُفْتى لِأنَّهُ الغالِبُ. ۔۔۔۔۔ والأُمُّ والجَدَّةُ) لِأُمٍّ، أوْ لِأبٍ (أحَقُّ بِها) بِالصَّغِيرَةِ (حَتّى تَحِيضَ) أيْ تَبْلُغَ فِي ظاهِرِ الرِّوايَةِ. ولَوْ اخْتَلَفا فِي حَيْضِها فالقَوْلُ لِلْأُمِّ بَحْرٌ بَحْثًا.
وأقُولُ: يَنْبَغِي أنْ يُحَكَّمَ سِنُّها ويُعْمَلَ بِالغالِبِ. وعِنْدَ مالِكٍ، حَتّى يَحْتَلِمَ الغُلامُ، وتَتَزَوَّجَ الصَّغِيرَةُ ويَدْخُلَ بِها الزَّوْجُ عَيْنِيٌّ (وغَيْرُهُما أحَقُّ بِها حَتّى تُشْتَهى) وقُدِّرَ بِتِسْعٍ وبِهِ يُفْتى.
الفتاوى الهندية: (542/1، ط: دار الفکر)
وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْغُلَامِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ وَقُدِّرَ بِسَبْعِ سِنِينَ وَقَالَ الْقُدُورِيُّ حَتَّى يَأْكُلَ وَحْدَهُ وَيَشْرَبَ وَحْدَهُ وَيَسْتَنْجِيَ وَحْدَهُ وَقَدَّرَهُ أَبُو بَكْرٍ الرَّازِيّ بِتِسْعِ سِنِينَ وَالْفَتْوَى عَلَى الْأَوَّلِ وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْجَارِيَةِ حَتَّى تَحِيضَ وَفِي نَوَادِرِ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدٍ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – إذَا بَلَغَتْ حَدَّ الشَّهْوَةِ فَالْأَبُ أَحَقُّ وَهَذَا صَحِيحٌ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ……..وَبَعْدَمَا اسْتَغْنَى الْغُلَامُ وَبَلَغَتْ الْجَارِيَةُ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَى يُقَدَّمُ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.
البحر الرائق: (184/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قَوْلُهُ وَالْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالْغُلَامِ حَتَّى يَسْتَغْنِيَ وَقُدِّرَ بِسَبْعٍ) ؛ لِأَنَّهُ إذَا اسْتَغْنَى يَحْتَاجُ إلَى تَأْدِيبٍ وَالتَّخَلُّقِ بِآدَابِ الرِّجَالِ وَأَخْلَاقِهِمْ وَالْأَبُ أَقْدَرُ عَلَى التَّأْدِيبِ وَالتَّعْنِيفِ وَمَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ مِنْ التَّقْدِيرِ بِسَبْعٍ قَوْلُ الْخَصَّافِ اعْتِبَارًا لِلْغَالِبِ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الصَّغِيرَ إذَا بَلَغَ السَّبْعَ يَهْتَدِي بِنَفْسِهِ إلَى الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَاللُّبْسِ وَالِاسْتِنْجَاءِ وَحْدَهُ فَلَا حَاجَةَ إلَى الْحَضَانَةِ…...وفي غاية البيان والتبيين والكافي أن الفتوى على قول الخصاف من التقدير بالسبع……وَبِهَا حَتَّى تَحِيضَ) أَيْ: الْأُمُّ وَالْجَدَّةُ أَحَقُّ بِالصَّغِيرَةِ حَتَّى تَحِيضَ؛ لِأَنَّ بَعْدَ الِاسْتِغْنَاءِ تَحْتَاجُ إلَى مَعْرِفَةِ آدَابِ النِّسَاءِ وَالْمَرْأَةُ عَلَى ذَلِكَ أَقْدَرُ وَبَعْدَ الْبُلُوغِ تَحْتَاجُ إلَى التَّحْصِينِ وَالْحِفْظِ وَالْأَبُ فِيهِ أَقْوَى وَأَهْدَى.
المبسوط للسرخسي: (223/5، ط: دار المعرفة)
وَاَلَّذِي قُلْنَا فِي الصِّغَارِ مِنْ الْأَوْلَادِ كَذَلِكَ فِي الْكِبَارِ إذَا كُنَّ إنَاثًا؛ لِأَنَّ النِّسَاءَ عَاجِزَاتٌ عَنْ الْكَسْبِ؛ وَاسْتِحْقَاقُ النَّفَقَةِ لِعَجْزِ الْمُنْفَقِ عَلَيْهِ عَنْ كَسْبِهِ. وَإِنْ كَانُوا ذُكُورًا بَالِغِينَ لَمْ يُجْبَرْ الْأَبُ عَلَى الْإِنْفَاقِ عَلَيْهِمْ لِقُدْرَتِهِمْ عَلَى الْكَسْبِ، إلَّا مَنْ كَانَ مِنْهُمْ زَمِنًا، أَوْ أَعْمَى، أَوْ مُقْعَدًا، أَوْ أَشَلَّ الْيَدَيْنِ لَا يَنْتَفِعُ بِهِمَا، أَوْ مَفْلُوجًا، أَوْ مَعْتُوهًا فَحِينَئِذٍ تَجِبُ النَّفَقَةُ عَلَى الْوَالِدِ لِعَجْزِ الْمُنْفَقِ عَلَيْهِ عَنْ الْكَسْبِ، وَهَذَا إذَا لَمْ يَكُنْ لِلْوَلَدِ مَالٌ فَإِذَا كَانَ لِلْوَلَدِ مَالٌ فَنَفَقَتُهُ فِي مَالِهِ؛ لِأَنَّهُ مُوسِرٌ غَيْرُ مُحْتَاجٍ وَاسْتِحْقَاقُ النَّفَقَةِ عَلَى الْغَنِيِّ لِلْمُعْسِرِ بِاعْتِبَارِ الْحَاجَةِ إذْ لَيْسَ أَحَدُ الْمُوسِرِينَ بِإِيجَابِ نَفَقَتِهِ عَلَى صَاحِبِهِ بِأَوْلَى مِنْ الْآخَرِ بِخِلَافِ نَفَقَةِ الزَّوْجَةِ، فَإِنَّ اسْتِحْقَاقَ ذَلِكَ بِاعْتِبَارِ الْعَقْدِ لِتَفْرِيغِهَا نَفْسَهَا لَهُ فَتَسْتَحِقُّ مُوسِرَةً كَانَتْ، أَوْ مُعْسِرَةً فَأَمَّا الِاسْتِحْقَاقُ هُنَا بِاعْتِبَارِ الْحَاجَةِ فَلَا يَثْبُتُ عِنْدَ عَدَمِ الْحَاجَةِ.
الفتاوی الھندیة: (560/1، ط: دار الفكر)
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة۔۔۔۔وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی