سوال:
کیا مندرجہ ذیل طریقے کے مطابق فرض نماز یا اس کی قضا پڑھنا درست ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمادیں:
۱) فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کی جگہ فقط سُبْحَانَ اللہ تین مرتبہ کہہ کر رکوع میں چلے جائیں، مگر یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ سیدھے کھڑے ہو کر سُبْحَانَ اللہ شروع کریں اور سُبْحَانَ اللہ پورا کھڑے کھڑے کہہ کر رکوع کے لیے سر جھکائیں، یہ تخفیف (کمی) صرف فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت کے لیے ہے، وتر کی تینوں رکعتوں میں الحمد اور سورت دونوں ضرور پڑھی جائیں۔
۲) تسبیحات رکوع و سجود میں صرف ایک ایک بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے، مگر یہ بات ہمیشہ ہر طرح کی نماز میں یاد رکھنی چاہیے کہ جب آدمی رکوع میں پورا پہنچ جائے اس وقت سُبْحَان کا ’سین‘ شروع کرے اور جب عظیم کا ’میم‘ ختم کرے اس وقت رکوع سے سر اٹھائے، اسی طرح جب سجدوں میں پورا پہنچ جائے، اس وقت تسبیح شروع کرے اور جب پوری تسبیح ختم کر لے تو سجدہ سے سر اٹھائے۔
۳) نماز فجر میں التحیات اور یوں ہی ظہر، عصر، مغرب، عشا اور وتر میں آخری التحیات کے بعد دُرود شریف اور دعائے ماثورہ کی جگہ صرف یہ دُرود شریف اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ پڑھ کر سلام پھیر دیں۔
۴) نماز وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کی جگہ تین یا ایک بار رَبِّ اغْفِرْلِیْ کہے۔
جواب: سوال میں نماز سے متعلق جن چار امور کا ذکر ہے، انکی تفصیل درج ذیل ہے:
۱) فرض کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تلاوت فرض نہیں ہے، بلکہ صرف قیام فرض ہے، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت آہستہ آواز سے سنت ہے، لہذا اگر کسی نے فرض کی پہلی اور دوسری رکعتوں میں واجب تلاوت کرلی ہو اور تیسری اور چوتھی رکعتوں میں خاموش رہے یا تسبیحات پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہو جائے گی۔
۲) راجح قول کے مطابق رکوع اور سجدے میں تسبیحات پڑھنا سنت ہے، دوسرے قول کے مطابق ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، لہذا اگر کسی شخص نے صرف ایک مرتبہ تسبیح پڑھ لی تو اس کی نماز صحیح ہو جائے گی۔
۳) قعدہ اخیرہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور ماثور دعا پڑھنا سنت ہے، درود ابراہیمی پڑھنا افضل اور بہتر ہے، لیکن اگر کسی نے کوئی دوسرا ماثور درود پڑھ لیا تو سنت ادا ہو جائے گی۔
۴) وتر کی تیسری رکعت میں دعائےقنوت پڑھنا واجب ہے اور مشہور دعا "اللھم انا نستعینک۔۔" پڑھنا سنت ہے، اگر کسی شخص نے اس دعا کے بجائے کوئی دوسری ماثور دعا پڑھ لی تو واجب ادا ہونے کی وجہ سےنماز صحیح ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجبوری مثلا: سفر، بیماری یا وقت کی تنگی کی وجہ سے مذکورہ بالا صورتوں پر عمل کرتے ہوئے مختصر نماز پڑھ لے تو اس کا فریضہ ادا ہو جائے گا، لیکن عام حالات میں اس طرح نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 757)
سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَرَدَّ وَقَالَ : ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ، فَرَجَعَ يُصَلِّي كَمَا صَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمْنِي ، فَقَالَ : إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا ، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا۔
سنن ابی داؤد: (باب الاسبال فی الصلاة، رقم الحدیث: 638)
عَنْ أبي ہُرَیْرَة قال: بینما رجلٌ یصلي مُسْبِلاً إزارَہ، إذْ قَالَ لَہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ، ثم قال: إذْہَبْ فَتَوَضَّأَ، فَذَہَبَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ لَہ رَجُلٌ: یارسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم! مَا لَکَ أَمَرْتَہ أنْ یَّتَوَضَّأَ؟ قال: انَّہ کَانَ یُصَلِّيْ وَہُوَ مُسْبِلٌ ازَارَہ وَانَّ اللّٰہَ جَلَّ ذِکْرُہ لاَ یَقْبِلُ صَلاَةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ ازَارَہ۔
الفتاوى الهندية: (76/1، ط: دار الفکر)
وَإِنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ وَالتَّسْبِيحَ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ حَرَجٌ وَلَا سَجْدَتَا السَّهْوِ إنْ كَانَ سَاهِيًا لَكِنَّ الْقِرَاءَةَ أَفْضَلُ هَذَا هُوَ الصَّحِيحُ مِنْ الرِّوَايَاتِ. هَكَذَا فِي الذَّخِيرَةِ وَعَلَيْهِ الِاعْتِمَادُ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَهُوَ الْأَصَحُّ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ فِي فَصْلِ الْقِرَاءَةِ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ. هَكَذَا فِي الْبَدَائِعِ وَالسُّكُوتُ مَكْرُوهٌ. هَكَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.
الدر المختار مع رد المحتار: (511/1، ط: سعید)
(واكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به (وهو مخير بين قراءة) الفاتحة وصحح العيني وجوبها (وتسبيح ثلاثا) وسكوت قدرها، وفي النهاية قدر تسبيحة، فلا يكون مسيئا بالسكوت (على المذهب) لثبوت التخيير عن علي وابن مسعود وهو الصارف للمواظبة عن الوجوب
(قوله وصحح العيني وجوبها) هذا مقابل ظاهر الرواية، وهو رواية الحسن عن الإمام وصححها ابن الهمام أيضا من حيث الدليل.
رد المحتار: (494/1، ط: دار الفکر)
والحاصل أن في تثليث التسبيح في الركوع والسجود ثلاثة أقوال عندنا، أرجحها من حيث الدليل الوجوب تخريجا على القواعد المذهبية، فينبغي اعتماده كما اعتمد ابن الهمام ومن تبعه رواية وجوب القومة والجلسة والطمأنينة فيهما كما مر. وأما من حيث الرواية فالأرجح السنية لأنها المصرح بها في مشاهير الكتب، وصرحوا بأنه يكره أن ينقص عن الثلاث
الفتاوی الھندیۃ: (74/1، ط: دار الفکر)
ويقول في ركوعه: سبحان ربي العظيم ثلاثا وذلك أدناه فلو ترك التسبيح أصلا أو أتى به مرة واحدة يجوز ويكره۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ويقول في سجوده سبحان ربي الأعلى ثلاثا وذلك أدناه.
الدر المختار مع رد المحتار: (512/1)
"(وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم) وصح زيادة في العالمين.
(قوله: وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم) قال في شرح المنية: والمختار في صفتها ما في الكفاية والقنية والمجتبى قال: سئل محمد عن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال: يقول: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، وهي الموافقة لما في الصحيحين وغيرهما".
و فیہ ایضاً: (9/2، ط: سعید)
قوله : "و يسن الدعاء المشهور" و ذكر في البحر عن الكرخي أن القنوت ليس فيها دعاء مؤقت، لأنه روي عن الصحابة أدعية مختلفة، و لأن المؤقت من الدعاء يذهب برقة القلب ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی