سوال:
مفتی صاحب ! اگر عورت کا شوھر کام کاج نہ کرتا ہو، بیوی کو صحیح خرچہ نہ دے، نہ بچوں کو ٹائم دے، فارغ ہو، سارا کام گھر کا اور باھر سودا لانے کا بیوی کرتی ہو، اس کے علاوہ نوکری بھی کرے پانچ گھنٹے، بچوں کو بھی خود اسکول کا کام اور دینی تعلیم خود ہی کرواتی ہو، ظاھر ہے کہ وہ یہ سب کر کے تھک جاتی ہے، پھر شوہر کو ٹائم دینا مشکل ہو جاتا ہے، اگر شوہر کے بلانے پر انکار کرے تو گنہگار ہے؟ اگر شوہر کسی غلط کام میں پڑ جائے تو بیوی کو گناہ ہو گا؟
جواب: واضح رہے کہ بیوی کے ذمہ شوہر کی جسمانی خواہش اور طبعی تقاضے کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے، تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگرچہ تنور پر روٹی بنارہی ہو ( تب بھی چلی آئے)۔
لہذا اگر بیوی کسی صحیح عذر مثلاً: خاص ایام یا بیماری وغیرہ کے بغیر شوہر کی جسمانی خواہش اور طبعی تقاضے کو پورا نہیں کرے گی، تو گناہگار ہوگی۔
حدیث شریف میں ہے کہ " جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری، تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں"۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے، تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔
لہذا بیوی کو چاہیے کہ وہ ممکنہ حد تک شوہر کی جسمانی خواہش اور طبعی تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرے، اور مرد کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں بیوی کے ساتھ ممکن درجے تک میانہ روی اور اعتدال کا خیال رکھے۔
واضح رہے کہ عورت کو اللہ رب العزت نے گھر کی زینت، امورِ خانہ داری کی اصلاح، والدین اور شوہر کی خدمت، اولاد کی صحیح پرورش اور دینی تربیت کے لیے پیدا کیا ہے، یہی اس کی پیدائش کا اصل مقصد ہے۔
شریعت مطہرہ نے عورت پر کسب معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے، بلکہ مردوں کو کسب معاش کا مکلف بنایا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسب معاش کا جلد از جلد انتظام کرے، اور آپ کو اس ذمہ داری اور بوجھ سے فارغ کرے، نیز بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی وقت نکالنے کی کوشش کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 34)
الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ....الخ
و قولہ تعالی: (الأحزاب، الآیۃ: 33)
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى....الخ
و قولہ تعالی: (الأحزاب، الآیۃ: 53)
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن....الخ
صحیح البخاری: (116/4، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح»
صحیح مسلم: (1060/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده، ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه، إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها»
سنن الترمذی: (456/2، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن قيس بن طلق، عن أبيه طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته، وإن كانت على التنور.
الفتاوی الھندیة: (560/1، ط: دار الفكر)
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة....وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی