سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان تنہائی میں نبی کریم ﷺ کی توہین یا ان کی شان میں گستاخی کرے اور ایسا کرنے کے بعد اپنی حرکتوں پر شرمندہ اور نادم ہوکر سچے دل سے توبہ کرے تو کیا اللہ تعالٰی اس کی توبہ کو قبول کرے گا؟
دوسرا سوال: کیا اس شخص کو کسی قاضی، عالم یا عوام کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہیے یا اپنی توبہ کا اظہار کیے بغیر تنہائی میں اس جرم سے توبہ کرلینا کافی ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے، لہذا اس وجہ سے یہ شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو اس کا نکاح بھی فسخ ہوگیا ہے، لہذا ایسےشخص پر لازم ہے کہ سب سے پہلے اپنے ایمان کی تجدید کرے، یعنی نئے سرے سے کلمہ شہادت پڑھ کر ایمان لائے اور اگر شادی شدہ ہے تو اپنی بیوی سے شرعی طریقہ پر نئے مہر کے ساتھ گواہوں (دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی کرے۔
تاہم گستاخی چونکہ تنہائی میں کی ہے، عام لوگوں کو اس کی خبر نہیں ہے، لہذا توبہ اور تجدید ایمان کے لیے کسی قاضی، عالم یا عوام وغیرہ کو بتانا ضروری نہیں ہے، البتہ اپنے اس عمل پر خوب توبہ واستغفار کرے اور تنہائی میں ندامت کے ساتھ خوب گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور آئندہ اس گناہ سے بچنے کا پکا عزم بھی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (234/4، ط: دار الفکر)
ولفظ النتف من سب الرسول - صلى الله عليه وسلم - فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويفعل به ما يفعل بالمرتد انتهى۔۔۔۔فبعد أخذه لا تقبل توبته اتفاقا فيقتل، وقبله اختلف في قبول توبته، فعند أبي حنيفة تقبل فلا يقتل
الفتاوی الھندیۃ: (263/2، ط: دار الفکر)
سئل عمن ينسب إلى الأنبياء الفواحش كعزمهم على الزنا ونحوه الذي يقوله الحشوية في يوسف - عليه السلام - قال: يكفر؛ لأنه شتم لهم واستخفاف بهم قال أبو ذر من قال: إن كل معصية كفر، وقال: مع ذلك أن الأنبياء - عليهم السلام - عصوا فكافر؛ لأنه شاتم، ولو قال: لم يعصوا حال النبوة ولا قبلها كفر؛ لأنه رد المنصوص.
رد المحتار: (246/4، ط: دار الفکر)
وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل و النکاح۔۔۔الخ
فتاوی دار العلوم دیوبند: (261/18، ط: مکتبۃ العلم)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی