سوال:
میری اپنی بیوی سے کپڑے استری نہ کرنے پر لڑائی ہوئی، میں نے کہا کہ پتا نہیں کس نے تمہارے ساتھ میرا رشتہ کروا دیا ہے، پتا نہیں کب میری جان چھوٹے گی، گندی عورت، تو بیوی نے کہا: چھوڑ دو، آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے کہا: تم میری طرف سے فارغ ہو، لیکن میری نیت بالکل بھی طلاق کی نہیں تھی، بلکہ اس کے الفاظ کا ایک رد عمل تھا۔ رہنمائی فرما دیں کہ اس سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ شوہر اگر اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں یا مذاکرہ طلاق کی حالت میں "تم میری طرف سے فارغ ہو" کے الفاظ کہے، تو بغیر نیت کے بھی مذکورہ الفاظ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے، البتہ اگر غصہ یا مذاکرہ طلاق نہ ہو، تو مذکورہ الفاظ کے ذریعے طلاق کی نیت سے ہی طلاق واقع ہوگی۔
چونکہ صورت مسئولہ میں مذکورہ الفاظ کہتے ہوئے شوہر کی طرف سے غصہ اور مذاکرہ طلاق پایا گیا ہے، اس لیے ان الفاظ سے ایک طلاق بائن بغیر نیت کے واقع ہوگئی ہے اور نکاح ختم ہوچکا ہے، لہذا اب شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہے، البتہ اگر میاں بیوی اپنی رضامندی سے عدت میں یا عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں، لیکن اس نکاح کے بعد شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہو گا، لہذا آئندہ اس بارے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الھندیۃ: (374/1، ط: دار الفکر)
"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".
و فیھا ایضاً: (348/1، ط: دار الفکر)
"(أما تفسيره) شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق
(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي
(وأما شرطه) على الخصوص فشيئان (أحدهما) قيام القيد في المرأة نكاح أو عدة".
الھدایۃ: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله".
و فیھا ایضاً: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله".
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144201200797
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی