سوال:
مرحومین کے لئے قربانی کے لئے جو دلیل دی جاتی ہے، اس دلیل کا کچھ لوگ جواب دیتے ہیں کہ مرحومین کے لیے قربانی حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہے اور جو دلیل ہے، وہ صرف نبی کریم ﷺ کے لئے خاص ہے۔ براہ کرم آپ سے اس بات کا تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔
جواب: واضح رہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا، یا اپنی نفل قربانی کا ثواب میت کو پہنچانا، یہ دونوں صورتیں صحيح احاديث سے ثابت ہیں، لہذا اگر استطاعت ہو تو میت کی طرف سے قربانی کرنى چاہیے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ میت کے لیے الگ سے حصہ رکھا جائے، ایک ہی حصہ ایک سے زیادہ مرحومین کے لیے کافی نہیں ہے، البتہ اپنی طرف سے ایک نفلی قربانی کرکے اس کا ثواب ایک سے زائد مرحومین کو پہنچایا جا سکتا ہے۔
یہاں دو باتیں الگ الگ ہیں، ایک ہے اپنی طرف سے نفل قربانى کرکے اس کا ثواب اپنے مرحومین کو پہنچانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی مرحوم کے نام سے قربانی کرنا۔
احادیث مبارکہ سے یہ دونوں باتیں ثابت ہیں، جہاں تک میت کو قربانى کا ثواب پہنچانے کا تعلق ہے، تو قرآن كريم، احادیث مبارکہ، اور سلف صالحین کے اجماع سے یہ بات ثابت ہے، اور جمہور اھل السنة و الجماعة کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان میت کو اس کی وفات کے بعد زندہ لوگوں کی طرف سے ان کے نیک اعمال، مثلاً: دعا و استغفار، ذکر و تلاوت، روزہ وحج اور صدقہ وخیرات، ان سب کا ثواب پہنچتا ہے اور ان کو ایصال ثواب کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ اور مستحسن بھی ہے۔
چونکہ قربانی کرنا ایک صدقہ ہے، لہذا جب میت کو دوسری نفلی عبادات وصدقات کا ثواب پہنچانا جائز ہے، تو قربانی کا ثواب پہنچانا بھی جائز ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ہمارے دارالافتاء الاخلاص كا مفصل فتو ى: ("قرآن کریم کی تلاوت، ذکر واذکار، دعائیں، صدقہ وخیرات اور حج وعمرہ وغیرہ کے ذریعے مرحومین کو ایصال ثواب کی شرعی حیثیت اور اس کا حکم۔ جواب نمبر: 106819)۔
جہاں تک کسی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا تعلق ہے، تو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اپنا عمل اس بارے میں یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنی طرف سے، اپنے اھل بیت کی طرف سے اور تمام امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کی طرف قربانی فرمایا کرتے تھے، یہ بات تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیان کی ہے، جن کے اسماء گرامی یہ ہیں:
١- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله عنها
٢- حضرت جابر بن عبداللہ رضي الله عنهما
٣- حضرت ابو طلحہ انصاری رضي الله عنه
٤- حضرت انس بن مالک رضي الله عنه
٥- حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه
٦- حضرت حذیفہ بن اسید رضي الله عنه
٧- حضرت ابو رافع رضي الله عنه
٨- حضرت علی المرتضیٰ رضي الله عنه
٩-حضرت ابو سعيد الخدري رضي الله عنه
10-حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما
ذیل میں ان روایات میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے، باقی روایات دلائل کے خانے میں درج کی جائیں گی:
١- حديث ام المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
عن عائشة، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا: «يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ»، ثُمَّ قَالَ: «اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ» فَفَعَلَتْ، ثُمَّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ: «بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ» ثُمَّ ضَحَّى بِهِ.
(الصحيح لمسلم: ٣/ ١٥٥٧ (١٩٦٧)باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توكيل والتسمية والتكبير)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایا: جس کے کھر، گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے، چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! چھری لے آؤ، پھرفرمایا: اسے پتھر تیز کرلو، چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ) نے چھری تیز کرلی، پھر آپ نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑا اور اسے پہلو کے بل لٹا کر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا: اللہ کے نام سے (ذبح کررہا ہوں) اے اللہ ! اسے محمد اور آل محمد اورامت محمد کی طرف سے قبول فرمالیجئے۔
٢- حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين أقرنين أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد وعن آل محمد صلى الله عليه وسلم".
(سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط 4/ 301،رقم الحديث 3122، شرح معاني الآثار 4/ 177، رقم الحديث6224،مسند أحمد ط الرسالة 43/ 37، رقم الحديث 25843)
ترجمہ :
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے، موٹے تازے، سینگوں والے، چت کبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی جانب سے ذبح فرماتے، جو توحید و رسالت کی گواہی دینے والے ہیں اور دوسرا محمد ﷺاور آل محمدﷺ کی جانب سے ذبح کرتے۔
٣- حدیث حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الحَسْنَاءِ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ.
(سنن أبي داو: ٣/ ٤٦١ (٢٧٨٣) أول كتاب الأضاحي/ باب الأضحية عن الميت)، والحديث سكت عنه أبو داود. وقال المنذري في «مختصره» ٣/ ٥ (٢٦٧٢): وأخرجه الترمذي وقال: غريب، لا نعرفه إلا من حديث شريك هذا آخر كلامه. وحنش تكلم فيه غير واحد، وقال ابن حبان البستي: كان كثير الوهم في الأخبار، ينفرد عن علي بأشياء لا تشبه حديث الثقات حتى صار ممن لا يحتج به، وشريك هو عبد الله القاضي، وفيه مقال فقد أخرج له مسلم في المتابعات.
(مسند أحمد: ٢/ ٢٠٥ (٨٤٣)، ولفظه: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ أَبَدًا و٢/ ٤٢٠ (١٢٧٩)، بطريقين، من زيادات عبد الله بن أحمد، وذكره الهيثمي في «مجمع الزوائد» ٤/ ٢١ (٥٩٧٩) كتاب الأضاحي/ باب فيمن أوصى بأن يضحى عنه، وقال: رواه عبد الله بن أحمد، وفيه أبو الحسناء، ولا يعرف روى عنه غير شريك و٢/ ٤٢٣ (١٢٨٦)من زيادات عبد الله بن أحمد.
(سنن الترمذي: ٣/ ١٦١ (١٤٩٥)أبواب الأضاحي عن رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ / باب ما جاء في الأضحية عن الميت) وقال: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك.
(المستدرك على الصحيحين للحاكم: ٤/ ٢٥٥ (٧٥٥٦)كتاب الأضاحي)، بطريقين، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعي.ووافقه الذهبي في «التلخيص».
(السنن الكبرى للبيهقي: ٩/ ٤٨٤ (١٩١٨٨)كتاب الضحايا/ باب قول المضحي اللهم منك وإليك فتقبل مني وقول المضحي عن غيره اللهم تقبل من فلان) وقال: رواه أبو داود عن عثمان بن أبي شيبة عن شريك، تفرد به شريك بن عبد الله بإسناده. وهو إن ثبت يدل على جواز التضحية عمن خرج من دار الدنيا من المسلمين
ترجمہ:
حضرت حنش سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ (یعنی ایک کی بجائے دو جانوروں کی قربانی کیوں؟) انہوں نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ (میں آپ کی وفات کے بعد) آپ کی طرف سے بھی قربانی کروں، پس یہ ایک قربانی میں آپ ﷺ کی طرف سے کر رہا ہوں۔
اس حدیث کی اسنادى حیثیت :
اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک حاکم میں نقل کرنے کے بعد فرمایا:
"هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو: الحسن بن الحكم النخعي"
(یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے ، لیکن حضرات شیخین (امام بخارى ومسلم) نے اس حدیث کو اپنى صحیحین مین بیان نہیں فرمایا) اور اس روایت کے متعلق امام ذہبی نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(المستدرك على الصحيحين للحاكم 4/ 255 ،رقم الحدیث7556)
(وفی التعليق - من تلخيص الذهبي)صحيح
خلاصہ کلام:
جو حضرات ممانعت کے قائل ہیں، ان کے پاس ممانعت کى کوئى دلیل نہیں ہے، جبکہ مذکورہ بالا روایت کو امام ابوداود رحمہ اللہ نے مستقل باب (باب الأضحية عن الميت) کے تحت ذکر فرمایا ہے اور اسى طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھى مستقل باب (باب ما جاء في الأضحية عن الميت ) کے تحت ذکر فرمایا ہے، اور امام بیھقی رحمہ اللّٰہ نے مستقل باب (باب قول المضحي اللهم منك وإليك فتقبل مني وقول المضحي عن غيره اللهم تقبل من فلان) تحت ذکر فرمائی ہے اور امام ابو داود اور امام ترمذى رحمہما اللہ نے اس حدیث کے ضعف کى طرف اشارہ نہیں فرمایا، نیز امام بیھقی رحمہ اللّٰہ نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ فرمایا: "وهو إن ثبت يدل على جواز التضحية عمن خرج من دار الدنيا من المسلمين" (یہ روایت اگر ثابت ہے، تو یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو مسلمان اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، ان کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے)۔
الغرض مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ میت کى طرف سے قربانى کرنا جائز ہے، اگر یہ منع ہوتى تو اتنى کثیر تعداد میں احادیث سے اس کا ثبوت نہ ہوتا۔
چنانچہ علمائے احناف، مالکیہ اور امام احمد بن حنبل کا یہی مسلک ہے کہ میت کى طرف سے مستقلا قربانى کرنا جائز ہے اور یہی قول زیادہ قوی اور راجح ہے، کیونکہ میت کی جانب سے قربانی کرنا ایک صدقہ ہے، جب میت کی طرف سے حج، عمرہ، صدقہ اور خیرات وغیرہ عبادتیں کی جاسکتی ہیں، تو قربانی کیوں نہیں کی جاسکتی؟
جبکہ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، جس کی بنا پر کہا جائے کہ دیگراعمال تو میت کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں، لیکن میت کی جانب سے قربانی نہیں کی ہو سکتى ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (باب الأضحية عن الميت، رقم الحدیث: 2783)
1- حديث علي بن أبي طالب رضي الله عنه
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الحَسْنَاءِ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ.
والحديث سكت عنه أبو داود. وقال المنذري في «مختصره» ٣/ ٥ (٢٦٧٢): وأخرجه الترمذي وقال: غريب، لا نعرفه إلا من حديث شريك هذا آخر كلامه. وحنش تكلم فيه غير واحد، وقال ابن حبان البستي: كان كثير الوهم في الأخبار، ينفرد عن علي بأشياء لا تشبه حديث الثقات حتى صار ممن لا يحتج به، وشريك هو عبد الله القاضي، وفيه مقال فقد أخرج له مسلم في المتابعات.
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 843)
ولفظه: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ أَبَدًا و٢/ ٤٢٠ (١٢٧٩)، بطريقين، من زيادات عبد الله بن أحمد، وذكره الهيثمي في «مجمع الزوائد» ٤/ ٢١ (٥٩٧٩) كتاب الأضاحي/ باب فيمن أوصى بأن يضحى عنه، وقال: رواه عبد الله بن أحمد، وفيه أبو الحسناء، ولا يعرف روى عنه غير شريك و٢/ ٤٢٣ (١٢٨٦)من زيادات عبد الله بن أحمد.
سنن الترمذي: (باب ما جاء في الأضحية عن الميت، رقم الحدیث: 1495)
وقال: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك.
المستدرك على الصحيحين للحاكم: (كتاب الأضاحي، رقم الحدیث: 7556)
بطريقين، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعي.ووافقه الذهبي في «التلخيص».
السنن الكبرى للبيهقي: (كتاب الضحايا، رقم الحدیث: 19188)
باب قول المضحي اللهم منك وإليك فتقبل مني وقول المضحي عن غيره اللهم تقبل من فلان) وقال: رواه أبو داود عن عثمان بن أبي شيبة عن شريك، تفرد به شريك بن عبد الله بإسناده. وهو إن ثبت يدل على جواز التضحية عمن خرج من دار الدنيا من المسلمين
2-حديث عائشة بنت أبي بكر الصديق رضي الله عنهما
حدثنا هارون بن معروف، حدثنا عبد الله بن وهب قال: قال حيوة: أخبرني أبو صخر، عن يزيد بن قسيط، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا: «يَا عَائِشَةُ هَلُمِّي الْمُدْيَةَ»، ثُمَّ قَالَ: «اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ» فَفَعَلَتْ، ثُمَّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ: «بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ» ثُمَّ ضَحَّى بِهِ.
صحيح مسلم: (باب استحباب الضحية و ذبحها، رقم الحدیث: 1967)
3-حديث عائشة أو أبي هريرة رضي الله عنهما
حدثنا محمد بن يحيى، قال: ثنا عبد الرزاق قال: أنبأنا سفيان الثوري، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن أبي سلمة، عن عائشة أوعن أبي هريرة، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ، وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلاغِ وَذَبَحَ الآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سنن ابن ماجه: (باب أضاحي رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث: 3122)
وقال: هذا إسناد حسن عبد الله بن محمد مختلف فيه. رواه البيهقي في الكبرى من طريق الطبراني عن ابن أبي مريم عن الفريابي عن سفيان فذكره بإسناده ومتنه ورواه أحمد بن منيع في مسنده ثنا سفيان بن عبد الله بن محمد بن عقيل بتمامه وله شاهد من حديث أنس رواه الشيخان والنسائي
سنن الترمذي: (باب أضاحي رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث: 27190)
4-حديث أبي رافع القبطي مولى النبي صلى الله عليه وسلم
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَإِذَا صَلَّى وَخَطَبَ النَّاسَ أَتَى بِأَحَدِهِمَا وَهُوَ قَائِمٌ فِي مُصَلَّاهُ فَذَبَحَهُ بِنَفْسِهِ بِالْمُدْيَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: " اللهُمَّ هَذَا عَنْ أُمَّتِي جَمِيعًا مِمَّنْ شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلَاغِ "، ثُمَّ يُؤْتَى بِالْآخَرِ فَيَذْبَحُهُ بِنَفْسِهِ وَيَقُولُ: " هَذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ "، فَيُطْعِمُهُمَا جَمِيعًا الْمَسَاكِينَ وَيَأْكُلُ هُوَ وَأَهْلُهُ مِنْهُمَا، فَمَكَثْنَا سِنِينَ لَيْسَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ يُضَحِّي قَدْ كَفَاهُ اللهُ الْمَئُونَةَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْغُرْمَ
مسند أحمد: (168/45)
والحديث أورده الهيثمي في "المجمع" 4/ 18 (5967-5968) كتاب الأضاحي/ باب أضحية رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: رواه البزار وأحمد بنحوه، ورواه الطبراني في الكبير بنحوه، ولأبي رافع في الأوسط قال: ذبح رسول الله صلى الله عليه و سلم كبشا ثم قال: "هذا عني وعن أمتي"، رواه في الكبير بنحوه وإسناد أحمد والبزار حسن.
مسند أبي يعلى الموصلي: (رقم الحدیث: 1417)
5-حديث أبي طلحة زيد بن سهل الأنصاري رضي الله عنه
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَقَالَ، عَنْدَ الذَّبْحِ الْأَوَّلُ: «عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ» وَقَالَ، عَنْدَ الذَّبْحِ الثَّانِي: «عَمَّنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَ مِنْ أُمَّتِي»
1418 - حَدَّثَنَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَقَالَ، عَنْدَ الذَّبْحِ الْأَوَّلُ «عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ» وَقَالَ، عَنْدَ الذَّبْحِ الْآخَرُ: «عَمَّنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَنِي مِنْ أُمَّتِي»
المستدرك على الصحيحين للحاكم: (كتاب الأضاحي، رقم الحدیث: 7547)
6-حديث أبي هريرة رضي الله عنه
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقَطِيعِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ سَمِينَيْنِ عَظِيمَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ مَوْجُوئَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ مَنْ شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلَاغِ»
سكت عنه الحاكم وسكت عنه الذهبي في التلخيص
مسند أحمد مخرجا (رقم الحدیث: 15022)
7-حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ الْمِصْرِيُّ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَبَحَ يَوْمَ الْعِيدِ كَبْشَيْنِ، ثُمَّ قَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، حَنِيفًا مُسْلِمًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ، وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، بِسْمِ اللَّهِ، واللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ، وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَأُمَّتِهِ»
مسند أبي يعلى الموصلي: (رقم الحدیث: 3118)
8-حديث أنس بن مالك رضي الله عنه
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَقَرَّبَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، هَذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ» وَقَرَّبَ الْآخِرَ فَقَالَ: «بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، هَذَا عَمَّنْ وَحَّدَكَ مِنْ أُمَّتِي»
المجمع للهيثمي: (باب أضحية رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحدیث: 5972)
وقال: رواه أبو يعلى والطبراني في الأوسط وفيه الحجاج بن أرطاة وهو ثقة ولكنه مدلس
المستدرك على الصحيحين للحاكم: (كتاب الأضاحي، رقم الحدیث: 7549)
9-حديث أبي سعيد الخدري رضي الله عنه
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا بحر بن نصر، ثنا عبد الله بن وهب قال: وأخبرني الدراوردي، عن ربيح بن عبد الرحمن بن أبي سعيد الخدري، عن أبيه، عن جده رضي الله عنه «أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَبَحَ كَبْشًا أَقْرَنَ بِالْمُصَلى ثم قال: اللّهُمَّ هذَا عَنِّيْ وَعَنْ مَنْ لَمْ يُضّحِّ مِنْ أُمَّتِيْ».
، وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وقال الذهبي في «التلخيص» صحيح.
شعب الإيمان: (رقم الحدیث: 6959)
10- حديث عبد الله بن عمر رضي الله عنهما
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَلَوِيُّ، أَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ حَمْدَوَيْهِ الْفَازِي، نا عَبْدُ اللهِ بْنُ حَمَّادٍ الْآمُلِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، نا أَبُو بَكْرٍ الْعَبْسِيُّ، نا أَبُو قَبِيلٍ حَيُّ بْنُ مُؤَمَّلٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ: " عَنِّي وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِي " وَذَبَحَ الْآخَرَ وَقَالَ: " عَنِّي وَعَنْ أُمَّتِي "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ ذَبَحَ كَبْشًا أَقْرَنَ فَكَأَنَّمَا ذَبَحَ مِائَةَ بَدَنَةٍ، وَمَنْ ذَبَحَ خَصِيًّا فَكَأَنَّمَا ذَبَحَ خَمْسِينَ بَدَنَةً، وَمَنْ ذَبَحَ نَعْجَةً فَكَأَنَّمَا ذَبَحَ بَقَرَةً، وَمَنْ ذَبَحَ بَقَرَةً فَكَأَنَّمَا ذَبَحَ عَشْرَ بَدَنَاتٍ".
وقال: أبو بكر العبسي هذا شيخ مجهول يروي المناكير، فإن صح ما في آخر الحديث فإنما أراد في تضعيف الله تعالى الأجر، والله أعلم
تحفة الأحوذي: (66/5)
"وكذلك حكى الإمام البغوي في شرح السنة عن بن المبارك قال في غنية الألمعي ما محصله إن قول من رخص في التضحية عن الميت مطابق للأدلة ولا دليل لمن منعها وقد ثبت أنه صلى الله عليه وسلم كان يضحي كبشين أحدهما عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ والآخر عن نفسه وأهل بيته ومعلوم أن كثيرا منهم قد كانوا ماتوا في عهده صلى الله عليه وسلم فدخل في أضحيته صلى الله عليه وسلم الأحياء والأموات كلهم والكبش الواحد الذي يضحي به عن أمته كما كان للأحياء من أمته كذلك كان للأموات من أمته بلا تفرقة ولم يثبت أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتصدق بذلك الكبش كله ولا يأكل منه شيئا بل قال أبو رافع أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يطعمهما جميعا المساكين ويأكل هو وأهله منهما رواه أحمد وكان دأبه صلى الله عليه وسلم أنه يأكل من الأضحية هو وأهله ويطعم منها المساكين وأمر بذلك أمته ولم يحفظ عنه خلافه فإذا ضحى الرجل عن نفسه وعن بعض أمواته أو عن نفسه وعن أهله وعن بعض أمواته فيجوز أن يأكل هو وأهله من تلك الأضحية وليس عليه أن يتصدق بها كلها نعم أن تخص الأضحية للأموات من دون شركة الأحياء فيها فهي حق للمساكين كما قال عبد الله بن المبارك انتهى ما في غنية الألمعي محصلا. قلت لم أجد في التضحية عن الميت منفردا حديثا مرفوعا صحيحا وأما حديث علي المذكور في هذا الباب فضعيف كما عرفت فإذا ضحى الرجل عن الميت منفردا فالاحتياط أن يتصدق بها كلها والله تعالى أعلم".
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (72/5)
«وذكر في الأصل إذا اشترك سبعة في بدنة فمات أحدهم قبل الذبح فرضي ورثته أن يذبح عن الميت جاز استحسانا والقياس أن لا يجوز.
(وجه) القياس أنه لما مات أحدهم فقد سقط عنه الذبح، وذبح الوارث لا يقع عنه؛ إذ الأضحية عن الميت لا تجوز فصار نصيبه اللحم، وأنه يمنع من جواز ذبح الباقين من الأضحية كما لو أراد أحدهم اللحم في حال حياته.
(وجه) الاستحسان أن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته - وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح - فدل أن الميت يجوز أن يتقرب عنه فإذا ذبح عنه صار نصيبه للقربة فلا يمنع جواز ذبح الباقين.»
الدر المختار مع رد المحتار: (326/6)
"قال فی البدائع :لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت، بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ، وقد صح "ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبشین احدھماعن نفسہ والاٰخر عمن لم یذبح من امتہ "وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح،
فدل ان المیت یجوزان یتقرب عنہ فاذاذبح عنہ صارنصیبہ
للقربۃ فلایمنع جوازالباقین
شرح زاد المستقنع للشنقيطي: (130/25)
وقال الشیخ الشنقیطی:
قول جمهور العلماء، وهم على جواز التضحية عن الأموات، والدليل على ذلك ما ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم لما ضحى بالكبشين قال عليه الصلاة والسلام: (اللهم هذا عن محمد وعن آل محمد)، قالوا: وفي آله الأحياء والأموات، وكذلك قال: (عمن لم يضح من أمة محمد)، فشمل أحياءهم وأمواتهم.
مجموع الفتاوى للإمام ابن تيمية رحمه الله: (306/26)
«وَقَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -:
فَصْلٌ:
وَتَجُوزُ الْأُضْحِيَّةُ عَنْ الْمَيِّتِ كَمَا يَجُوزُ الْحَجُّ عَنْهُ وَالصَّدَقَةُ عَنْهُ وَيُضَحَّى عَنْهُ فِي الْبَيْتِ وَلَا يُذْبَحُ عِنْدَ الْقَبْرِ أُضْحِيَّةً وَلَا غَيْرَهَا.»
الاختيارات الفقهية لشيخ الإسلام ابن تيمية لدى تلاميذه: (379/1)
• قال ابن مفلح: (قال شيخنا: والتضحية عن الميت أفضل) [الفروع 3/ 554 (6/ 101)].
فتاوى اللجنة الدائمة: (414/10)
ج: الأضحية عن الميت مشروعة؛ لأن النبي - صلى الله عليه وسلم - ضحى عمن لم يضح من أمة محمد، وهذا يشمل الأحياء والأموات، فعن جابر قال: «صليت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عيد الأضحى، فلما انصرف أتي بكبش فذبحه، فقال: باسم الله والله أكبر، اللهم هذا عني، وعمن لم يضح من أمتي (1) » رواه أحمد وأبو داود الترمذي.
وأيضا ضحى أمير المؤمنين علي بن أبى طالب عن النبي - صلى الله عليه وسلم - بعد مماته، فعن حنش الصنعاني قال: «رأيت عليا رضي الله عنه يضحي بكبشين، فقلت له: ما هذا؟ فقال: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أوصاني أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه (2) » . رواه أبو داود والترمذي، والقائل بأنه لا يضحى عن الميت ليس عنده دليل يمنع ذلك؛ فرأيه مرجوح لا عمل عليه.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
بكر أبو زيد ... عبد العزيز آل الشيخ ... صالح الفوزان ... عبد الله بن غديان ... عبد الرزاق عفيفي ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
فتاوى و استشارات الإسلام اليوم: (299/7)
«الأضحية عن الميت
المجيب اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
برئاسة الشيخ عبد العزيز بن باز-رحمه الله-
كتاب الحج والعمرة/الأضحية والعقيقة
التاريخ 08/12/1422ه
السؤال
هل تجوز الأضحية للميت؟
الجواب
أجمع المسلمون مشروعيتها من حيث الأصل، ويجوز أن يضحي عن الميت؛ لعموم قوله - صلى الله عليه وسلم -:" إذا مات ابن آدم انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به، أو ولد صالح يدعو له " رواه مسلم وأبو داود والترمذي والنسائي والبخاري في الأدب المفرد عن أبي هريرة، وذبح الأضحية عنه من الصدقة الجارية؛ لما يترتب عليها من نفع المضحي والميت وغيرهما. وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
الفقه الميسر: (124/4)
«الأضحية عن الميت:
يتفق الفقهاء على جواز الأضحية عن الميت إذا كانت بوصية من الميت أو وقف وقفه ليضحى منه وتنفذ كما جاءت، أما إذا كانت الأضحية عن الميت من الوارث أو غيره تبرعًا فقد اختلف الفقهاء في ذلك:
1 - فذهب الجمهور من الحنفية والمالكية والحنابلة إلى جواز ذلك لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت كما في الصدقة والحج؛ لأنه صح أن النبي - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه وأهل بيته والآخر عمن لم يضح من أمته (3).
2 - وذهب الشافعية إلى أن الذبح عن الميت لا يجوز بغير وصية أو وقف (4).
الراجح: القول بالجواز هو الراجح لحديث إن النبي - صلى الله عليه وسلم - ضحى بأحد الكبشين عمن لم يضح من أمته وفيهم أموات.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (التضحية عن الميت، 106/5)
66 - إذا أوصى الميت بالتضحية عنه، أو وقف وقفا لذلك جاز بالاتفاق. فإن كانت واجبة بالنذر وغيره وجب على الوارث إنفاذ ذلك. أما إذا لم يوص بها فأراد الوارث أو غيره أن يضحي عنه من مال نفسه، فذهب الحنفية والمالكية والحنابلة إلى جواز التضحية عنه، إلا أن المالكية أجازوا ذلك مع الكراهة. وإنما أجازوه لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت كما في الصدقة والحج.
وقد صح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يضح من أمته. (1) وعلى هذا لو اشترك سبعة في بدنة فمات أحدهم قبل الذبح، فقال ورثته - وكانوا بالغين - اذبحوا عنه، جاز ذلك. وذهب الشافعية إلى أن الذبح عن الميت لا يجوز بغير وصية أو وقف.
والله تعالى اعلم بالصواب
دار الافتاء الإخلاص،كراچى