عنوان: زندگی میں جائیداد کی تقسیم کرنا، نیز کیا والد اور والدہ کی میراث کی تقسیم میں فرق ہے؟ (7954-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! مجھے آپ سے وراثت سے متعلق ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے،
ہم کل ملا کر 6 (چھ) بھائی اور 3 (تین ) بہنیں ہیں، الحمد للہ ! تمام لوگ شادی شدہ ہیں، میرے والد محترم 3 سال قبل وفات پا چکے ہیں، والدہ محترمہ الحمدللہ حیات ہیں۔
والد صاحب اور ہم سب نے پوری زندگی کی محنت سے ایک گھر تعمیر کیا، جس میں 3 (تین) بھائی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، ظاہر ہے کہ ہر بھائی نے اپنی حیثیت کے حساب سے اپنا مال اس کی تعمیر میں استعمال کیا۔ ( کسی نے کم کسی نے زیادہ اور کسی نے بالکل بھی نہیں )اس گھر کی ملکیت والدہ کے نام ہے، والدہ محترمہ اسکی شرعی وراثت / تقسیم کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
۱- کیا والدہ اپنی زندگی میں اس گھر کی وراثت کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکتی ہیں؟
۲۔ کیا والد کی ملکیت اور والدہ کی ملکیت کی وراثت کے لئے شرعی قوانین یکساں ہیں یا ان میں فرق ہے ؟ ( کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ والدہ اپنی مرضی سے جس اولاد کو چاہے، جتنا بھی حصہ دے سکتی ہیں، جبکہ والد کی وراثت میں ہر بیٹے کو ۲ (دو) اور بیٹی کو ۱ (ایک ) حصہ ہی مل سکتا ہے) براہ کرم وضاحت فرمادیں۔

جواب: (1).....واضح رہے کہ شرعی طور پر وراثت انتقال کے بعد جاری ہوتی ہے، زندگی میں وراثت جاری نہیں ہوتی بلکہ زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت کا خود مالک و مختار ہے، لہٰذا مذکورہ گھر چونکہ آپ کی والدہ کی ملکیت ہے اس لیےاس گھر کو زندگی میں تقسیم کرنا شرعاًان کی ذمہ لازم نہیں ہے اور نہ ہی آپ بھائی بہن ان سے تقسیم کا مطالبہ کرسکتے ہیں، البتہ اگر والدہ خود اپنی خوشی و رضامندی سے اپنی زندگی میں ہی مذکورہ گھر تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی اجازت ہے ، لیکن شرعاً یہ میراث نہیں کہلائے گی، بلکہ یہ آپ کی والدہ کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے ہبہ (گفٹ) کہلائے گا اور اس پرگفٹ کے احکام جاری ہوں گے۔
مذکورہ گھر زندگی میں تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ:
آپ کی والدہ پہلے اپنے لیے اپنے گھر کی قیمت میں سے جو کچھ رکھنا چاہیں رکھ لیں تاکہ بعد میں کسی کی محتاجی نہ ہو، نیز ان پر کسی کا قرض ہوتو وہ بھی ادا کرلیں، اس کے بعد جو بقایا مال و جائیداد بچے، اس میں بہتر یہ ہے کہ اپنی اولاد (آ پ بہن بھائیوں ) میں برابر برابر تقسیم کردیں ،یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیں اتنا ہی بیٹی کو بھی دیں۔
اور اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بیٹوں کو بیٹیوں سے دو گنا دینا چاہیں تو وہ بھی جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔
واضح رہے کہ اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اسکے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اگران میں سے کوئی زیادہ فرمانبردار ہو،یا دین دار ہو، یا اس کی مالی حالت بہتر نہ ہو تو اس بناء پر کچھ زیادہ دینا جائز ہے۔ اسی طرح جن بیٹوں نے اس گھر کی تعمیر میں اپنا سرمایہ خرچ کیا ہے تو زندگی میں برابری کرنے کے لیےان کو دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ حصہ دینا بھی شرعاً درست ہے۔
نیز چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ(گفٹ)ہے، اس لیے اگر کسی جائیداد میں سے کوئی حصہ دینا چاہیں تو اس کو مالک و قابض بناکردینا لازم ہے، پھر آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد یہ گھر ان کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ جس کو جو حصہ قابض و مالک بناکر دیا گیا، وہی اس کا مالک ہوگا۔
(2)....جی ہاں ! والد اور والدہ کی ملکیت کی وراثت میں شرعی حکم یکساں ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے، یعنی جس طرح والد کی میراث میں بیٹے کے دو حصے اور بیٹی کا ایک حصہ ہوتا ہے اسی طرح والدہ کی میراث میں بھی یہی طریقہ ہے۔چنانچہ بعض لوگوں کا جو خیال سوال میں ذکر کیا گیا ہے وہ شرعاً درست نہیں ہے، البتہ زندگی میں اپنی ملکیت تقسیم کرنے کے متعلق جو طریقہ اور تفصیل ہے وہ جواب نمبر ایک(1) میں لکھ دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مشكاة المصابيح: (رقم الحدیث: 3019، 909/2، ط: المكتب الإسلامي)
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ» .......... وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «لَا أشهد على جور» (مُتَّفق عَلَيْهِ)

مرقاة المفاتيح: (2008/5، ط: دار الفكر)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ.........قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».

تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،.........أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد...

رد المحتار: (کتاب الفرائض، 769/6، ط: سعید)
أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث.

اللباب في شرح الكتاب: (کتاب المفقود، 217/2، ط: المكتبة العلمية)
ومن شرط الإرث تحقق موت الموروث وحياة الوارث.

بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم [الخ].......وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى. .......وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

الدر المختار: (696/5، ط: سعید)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..

البحر الرائق: (تحت بحث ہبۃ الطفل، 288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.

الفتاوى الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب..

کذا فی تبویب فتاویٰ دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 2242/9

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاءالاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1654 Jul 08, 2021
zindagi mai jaidad ki taqseem karna neez kia waalid or walida ki meeras ki taqseem mai farq hai?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.