سوال:
السلام علیکم، جناب مفتی صاحب ! میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی مرد یا عورت میں سے کسی ایک نے شادی سے پہلے زنا کیا ہو اور وہ زنا سے توبہ کے بغیر نکاح کرلے، بچے بھی ہوجائیں تو کیا زانی اور غیر زانی کے درمیان نکاح منقعد ہوگیا؟
کیا زانی مرد یا عورت کا نکاح سے پہلے توبہ کرنا لازم اور ضروری ہے یا نہیں؟ اگر بغیر توبہ کے نکاح کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟ جبکہ شادی کے بعد پاک دامنی کی زندگی گزار تا ہوں۔
جواب: قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے "زنا" کی شناعت بیان کی ہے، اور احادیث میں "زنا" کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے، البتہ زنا کی وجہ سے آدمی کے لئے نکاح کرنا حرام نہیں ہوتا، زانی اور مزنیہ پر لازم ہے کہ سچے دل سے توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کریں۔
صورت مسئولہ میں اگر کوئی سبب حرمت نہ ہو تو مذکورہ شخص کا نکاح درست ہوگا، اور اس کی اولاد جائز اور ثابت النسب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الآیۃ: 32)
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًاo
و قولہ تعالٰی: (النساء، الآیۃ: 24)
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاo
مختصر القدوری: (145/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي أو يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل مثل أن يقول: زوجتي فيقول زوجتك
ولا يعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين أو رجل و امرأتين
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی