سوال:
مفتی صاحب ! رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ حدیث درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ (جانور ذبح کرنے تک) نہ اپنے جسم کے بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:5234، باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ)
جواب: جی ہاں! سوال میں مذکور حدیث "صحیح" ہے، حدیث کی مشہور کتاب "صحیح مسلم" میں مذکور ہے، حدیث کا ترجمہ درج ذیل ہے:
ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے"۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 1977) (1)
نوٹ:
فقہائے کرام نے مذکورہ بالا حدیث کو پیش نظر رکھ کرفرمایا ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک اپنے ناخن، سر، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹے، نیز واضح رہے کہ یہ (عمل) مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔ "مستحب" کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کام کر لیا جائے تو ثواب ہے اور نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے، لہذا اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اس کو ملامت اور طعن و تشنیع نہیں کرنی چاہیے۔ (2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1) صحيح مسلم :(كتاب الأضاحى/ باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره، أو أظفاره شيئا،3/ 1565، رقم الحديث (1977)، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)
عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا رأيتم هلال ذي الحجة، وأراد أحدكم أن يضحي، فليمسك عن شعره وأظفاره".
(2) رد المحتار: (181/2، ط: دار الفكر)
"ومما ورد في صحيح مسلم :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي ،فلا يأخذن شعراولا يقلمن ظفرا".فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالإجماع".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی