عنوان: "تم اپنے بال بنوالو، اپنے ناخن ترشوالو، لبوں کے بال کتروالو اور زیر ناف کے بال صاف کر لو، اللہ کے نزدیک تمہاری یہی قربانی ہو جائے گی" حدیث کی وضاحت(7989-No)

سوال: قربانی سے متعلق چند باتوں کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمادیں:
۱) ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے دس تاریخ تک بال ناخن نہ کاٹنے کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا یہ حکم قربانی کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے لئے ہے؟
۲) مجھے سنن نسائی کے حوالے سے ایک حدیث پہنچی ہے، ایک غریب صِحابی بارگاہ رسالت ماب میں کہتے ہیں: میرے پاس منیحہ ( ادھار پر لیا گیا جانور) کے سوا کچھ نہیں، کیا میں اسے قربان کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اپنے بال ناخن موئے زیر ناف تراشوں، اس میں تمھاری قربانی ہوجائے گی، کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل سے مکمل قربانی کا ثواب ملے گا؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت سنن أبی داؤد، سنن النسائی اور حدیث کی دیگر کتب میں موجود ہے، ذیل میں مکمل روایت سند، متن، ترجمہ اور مختصرتشریح کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے۔
أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قال: حدثنا ابن وهب قال: أخبرني سعيد بن أبي أيوب، وذكر آخرين: عن عياش بن عباس القتباني، عن عيسى بن هلال الصدفي، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل: «أمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الأمة»، فقال الرجل: أرأيت إن لم أجد إلا منيحة أنثى أفأضحي بها؟ قال: «لا، ولكن تأخذ من شعرك، وتقلم أظفارك، وتقص شاربك، وتحلق عانتك، فذلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل»
(السنن الصغری للنسائی،حدیث نمبر:۴۳۶۵،ج:۷، ص:۲۱۲،ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں بقرہ عید کے دن کو عید قرار دوں اور اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لئے عید مقرر فرمایا ہے۔
ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر مجھے مادہ منیحہ کے علاوہ اور (جانور) میسر نہ ہو، تو کیا میں اسی کو قربانی کر لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ! ہاں تم اپنے بال بنوالو، اپنے ناخن ترشوالو، لبوں کے بال کتروالو اور زیر ناف کے بال صاف کر لو، اللہ کے نزدیک تمہاری یہی قربانی ہو جائے گی۔
تشریح:
۱۔ واضح رہے کہ سوال میں "منیحۃ" کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے، صحیح یہ ہے کہ " منیحہ" منح سے مشتق ہے، جس کے معنی عطاء و بخشش کے ہیں، اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ وہ ازراہ ِ ہمدردی و احسان اپنی کوئی دودھ والی اونٹنی محتاجوں کو دے دیا کرتے تھے، تاکہ وہ اس کے دودھ، اون اور اس کے بچوں سے اپنی ضرورت و احتیاج کے وقت تک فائدہ اٹھائے اور جب اس کی ضرورت و حاجت پوری ہو جائے تو اسے واپس کر دے، لہذا منیحۃ کا صحیح ترجمہ "عاریت کے طور پر لیا ہوا جانور" ہے۔
2۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ آپﷺ نے اس غریب صحابی کو اس جانور کی قربانی کرنے سے کیوں منع فرمایا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس صحابی کے پاس منیحہ (عاریت کے طور پر لیا ہوا) جانور تھا، جو انہیں کسی نے ضرورت و حاجت کے پیش نظر دیا تھا، انہوں نے بقرہ عید میں اسی جانور کی قربانی کی اجازت چاہی، تو جناب رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا، کیونکہ اول تو قاعدہ کے مطابق اپنی ضرورت کے بعد وہ جانور انہیں اصل مالک کو واپس کرنا تھا، جیسا ایک دوسری روایت میں آتا ہے، "المنحة مردودة" (منحیہ واپس کرنا ضروری ہے)، دوسرے اس جانور کے علاوہ ان کے پاس ایسا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا، جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے۔
۳۔قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک اپنے ناخن، سر، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔
واضح رہے کہ یہ (عمل) مستحب ہے، واجب نہیں۔
"مستحب" کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کام کر لیا جائے تو ثواب ہے اور نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے، لہذا اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اس کو ملامت اور طعن و تشنیع نہیں کرنی چاہیے۔
۴۔مذکورہ بالا حدیث شریف سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرکے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے ناخن، سر، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹیں، تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب کے مستحق ہوں گے، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ جس شخص پر قربانی واجب ہو، اگر وہ قربانی نہ کرے اور ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے ناخن، سر، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹے، تو اس کے ذمے سے قربانی ساقط ہوجائے گی اور محض اسی عمل کی وجہ سے وہ قربانی کا ثواب پا لے گا، کیونکہ اس قسم کی احادیث مبارکہ (جن میں ایک عمل پر دوسرے عمل کے ثواب کا ذکر ہوتا ہے) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرا عمل ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے، مثلا ً: والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے سے حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے، تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اگر کسی پر حج فرض ہو، وہ والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اس کا حج ادا ہوجائے گا، بلکہ حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حج کرنے سے ملتا ہے، اسی طرح والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھنے سے بھی ثواب ملے گا، لہذا اگر کسی شخص پر قربانی واجب ہو، تو وہ قربانی کیے بغیر بری الذمہ نہیں ہوگا۔
حاصل یہ ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظرآنے کے بعد قربانی کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں کے لیے اپنے ناخن، سر، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹنا مستحب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تخریج الحدیث:
أخرجه ابن حبان في "صحيحه" (3 / 50) برقم: (773) ، (13 / 235) برقم: (5914) والحاكم في "مستدركه" (2 / 532) برقم: (3986) ، (4 / 223) برقم: (7624) والنسائي في "المجتبى" (1 / 857) برقم: (4377 / 1) والنسائي في "الكبرى" (4 / 336) برقم: (4439) ، (7 / 262) برقم: (7973) ، (9 / 264) برقم: (10484) وأبو داود في "سننه" (1 / 529) برقم: (1399) ، (3 / 50) برقم: (2789) والبيهقي في "سننه الكبير" (9 / 263) برقم: (19097) ، (9 / 264) برقم: (19098) والدارقطني في "سننه" (5 / 507) برقم: (4749) وأحمد في "مسنده" (3 / 1384) برقم: (6686) والبزار في "مسنده" (6 / 429) برقم: (2459) والطحاوي في "شرح معاني الآثار" (4 / 159) برقم: (6161) والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (14 / 144) برقم: (5530) ، (14 / 145) برقم: (5531) والطبراني في "الكبير" (14 / 120) برقم: (14740) ، (14 / 121) برقم: (14741) ، (14 / 123) برقم: (14742)

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1977، ط: دار احیاء التراث العربی)
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ

رد المحتار: (181/2، ط: دار الفكر)
ومما ورد في صحيح مسلم قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا» فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالإجماع.

مرقاۃ المفاتیح: (1091/3، ط: دار الفكر)
(إن لم أجد إلا منيحة) في النهاية: المنيحة: أن يعطي الرجل الرجل ناقة أو شاة ينتفع بلبنها ويعيدها، وكذا إذا أعطى لينتفع بصوفها ووبرها زمانا ثم يردها.

و فیھا ایضاً: (1091/3، ط: دار الفكر)
(تمام أضحيتك عند الله) أي: أضحيتك تامة بنيتك الخالصة، ولك بذلك مثل ثواب الأضحية، ثم ظاهر الحديث وجوب الأضحية إلا على العاجز، ولذا قال جمع من السلف: تجب حتى على المعسر، ويؤيده حديث: «يا رسول الله، أستدين وأضحي؟ قال: نعم ; فإنه دين مقضي» . قال ابن حجر: ضعيف مرسل. قلت: أما المرسل فهو حجة عند الجمهور، وأما كونه ضعيفا لو صح فيصلح أن يكون مؤيدا مع أنه يعمل بالضعيف في فضائل الأعمال، والجمهور على أنه محمول على الاستحباب بطريق أبلغ، وقد قال أبو حنيفة: لا يجب إلا على من يملك نصابا، والجمهور على أنه سنة مؤكدة، وقيل: سنة كفاية. (رواه أبو داود، والنسائي)

و فیھا ایضاً: (1081/3، ط: دار الفكر)
(وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إذا دخل العشر) أي: أول عشر ذي الحجة. (وأراد) أي: قصد. (بعضكم أن يضحي) : سواء وجب عليه الأضحية، أو أراد التضحية على الجهة التطوعية، فلا دلالة فيه على الفرضية، ولا على السنية۔۔۔۔۔ والحاصل أن المسألة خلافية، فالمستحب لمن قصد أن يضحي عند مالك والشافعي أن لا يحلق شعره، ولا يقلم ظفره حتى يضحي، فإن فعل كان مكروها. وقال أبو حنيفة: هو مباح، ولا يكره، ولا يستحب. وقال أحمد: بتحريمه كذا في رحمة الأمة في اختلاف الأئمة. وظاهر كلام شراح الحديث من الحنفية أنه يستحب عند أبي حنيفة فمعنى قوله: رخص. أن النهي للتنزيه فخلافه خلاف الأولى، ولا كراهة فيه خلافا للشافعي

بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني: (70/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
أصل المنيحة ما يعطيه الرجل غيره من ناقة أو شاه ليشرب لبنها ثم يردها عليه، ثم يقع على كل شاة لأن من شأنها أن يمنح بها. وهو المراد هنا ما أعطاه غيره ليشرب اللبن، ومنعه لأنه ملك الغير، وربما كان الرجل لا يفهم أن المنحة ترد وكان ذلك سببًا لقوله صلى الله عليه وسلم في غير هذا الحديث "المنحة مردودة"

و فیہ ایضاً: (71/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
فيه دلالة على أن الفقير الذي لا يقدر على التضحية يستحب له أن يأخذ من شعره وأن يقلم أظفاره ويقص شاربه ويحلق عانته فذلك يكفيه عن الضحية، وله أن يفعل ذلك في العشر بدون حرج ليشارك الناس يوم العيد في زينتهم وسرورهم ونظافتهم، والله الموفق

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1378 Jul 14, 2021
qurbani na karne walay kay liye zi hajja ka chand nazar aanay kay baad baal or naakhun kaatnay ka hukum or aik hadees ki wazahat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.