سوال:
مفتی صاحب ! ٹخنوں سے پاجامہ یا شلوار اوپر رکھنے کے متعلق احادیث مطلوب ہیں۔ جزاک اللہ خیر
جواب: واضح رہے کہ مَردوں کے لیے شلوار، تہبند، پینٹ اور پتلون کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھ کر ٹخنوں کو ڈھانکنا مکروہ تحریمی ہے، خواہ نماز کی حالت ہو یا نماز کے علاوہ، ہر حال میں ناجائز ہے، جناب رسول اللہ ﷺ نے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پرسخت وعید بیان فرمائی ہے، ذیل میں اس سلسلے کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
۱۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جو کوئی اپنا کپڑا کبر و غرور اور فخر کے طور پر (زمین پر) گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طر ف نظرِ کرم نہ فرمائے گا‘‘۔(صحیح بخاری ،حدیث نمبر:5783،ط:دارطوق النجاۃ)
2۔حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے ٹخنوں کے نیچے ازار باندھا، وہ دوزخ میں ہوگا‘‘۔(صحیح بخاری ،حدیث نمبر:5778)
۳۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، فرماتے تھے کہ’’ مومن بندے کے لیے ازار یعنی تہبند باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پنڈلی کے درمیانی حصہ تک ہو اور نصف ساق اور ٹخنوں کے درمیان تک ہو تو یہ بھی گناہ نہیں ہے، (یعنی جائز ہے) اور جو اس سے نیچے ہو، تو وہ جہنم میں ہے‘‘۔(مسند احمد: حدیث نمبر:11487،ط: مؤسسة الرسالة)
۴۔حضرت جابر بن سلیم سے مروی ایک روایت میں ہے، جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تہبند (شلوار یا پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچتے رہو،کیونکہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں فرماتے‘‘۔(سنن أبی داؤد:حدیث نمبر :4084،ط:المکتبۃ العصریۃ)
نیز واضح رہے کہ بعض احادیث مبارکہ میں ٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکانے سے تکبر کی وجہ سے منع کیا گیا ہے، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر تکبر نہ ہو، تو ٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکانا جائز ہے، بلکہ تہبند وغیرہ کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ہر صورت میں مرد کے لیے منع ہے، چاہے وہ تکبر کی نیت سے ہو یا تکبر کی نیت سےنہ ہو۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مَردوں کے لیے ٹخنوں کو ڈھانکنا مکروہ تحریمی ہے، خواہ نماز کی حالت ہو یا نماز کے علاوہ اور چاہے تکبر کی نیت سے ہو یا تکبر کی نیت سے نہ ہو ،بہرصورت ناجائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح بخاری: (رقم الحديث: 5783، 141/7، ط: دار طوق النجاۃ)
عن ابن عمر رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء
صحیح البخاري: (رقم الحديث: 5778، 141/7، ط: دار طوق النجاۃ)
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار»
مسند احمد: (رقم الحديث: 11487، 63/18، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إزرة المسلم إلى نصف الساق، فما كان إلى الكعب فلا بأس، وما تحت الكعب ففي النار
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 4084، 98/4، ط: المکتبة العصریة)
و في الحديث الطويل عن جابر بن سليم ’’ وإياك وإسبال الإزار، فإنها من المخيلة، وإن الله لا يحب المخيلة‘‘۔
تکملة فتح الملهم: (کتاب اللباس و الزینة، 123/4، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)
والحاصل۔ عند ھذا العبد الضعیف عفااللہ عنه۔ ان العلة الاصلیة من وراء تحریم الاسبال ھی الخیلاء، کماصرح به رسول اللہ ﷺ فی حدیث الباب و لکن تحقق الخیلاء امر مخفی ربما لایطلع علیه من ابتلی به فاقیم سببه مقام العلة و ھو الاسبال ۔۔۔۔ وعلی ھذا کلما تحقق الاسبال تحت اللکعبین جاء المنع الا فی غیر حالة الاختیار فان انتفاء الخیلاء فی ذلك متیقن لان الخیلاء لاتحقق بفعل لا قصد للعبد فیه و من ھذہ الجھة اجاز رسول اللہ ﷺ الاسبال لابی بکر وقال له " لست ممن یصنع خیلاء"۔۔۔
فتح الباری لابن حجر العسقلانی: (263/10، ط: دار المعرفة)
وفي هذه الأحاديث أن إسبال الإزار للخيلاء كبيرة وأما الإسبال لغير الخيلاء فظاهر الأحاديث تحريمه أيضا لكن استدل بالتقييد في هذه الأحاديث بالخيلاء على أن الإطلاق في الزجر الوارد في ذم الإسبال محمول على المقيد هنا فلا يحرم الجر والإسبال إذا سلم من الخيلاء قال بن عبد البر مفهومه أن الجر لغير الخيلاء لا يلحقه الوعيد إلا أن جر القميص وغيره من الثياب مذموم على كل حال ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی