سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب !مسئلہ یہ ہے کہ ٹیلی نار کی طرف سے روزانہ دن کے حساب سے ایم بیز ملتے ہیں، اس میں یہ ہوتا ہے کہ ایک پیسہ ہونا بھی ضروری ہے، اگر ایک پیسہ نہیں ہوگا تو آپ کو ایم بیزی نہیں ملتے، تو آیا اس طرح ایسا خرچ کرکے روزانہ ایم بیز لینا درست ہے یا یہ سود کے زمرے میں آئے گا؟
براہ کرم رہنمائی فرمادیں، اللہ آپ کو جزائے خیر نصیب فرمائے۔ آمین
جواب: واضح رہے کہ اگر کمپنی کی طرف سے اضافی انٹرنیٹ ایم بیز (MBs)، اضافی منٹس یا کوئی بھی دوسرا اضافی نفع، اس شرط پر دیا جاتا ہو کہ اکاؤنٹ میں مخصوص رقم رکھی جائے، تو یہ قرض کی بنیاد پر حاصل ہونے والا مشروط نفع ہے، جو کہ سود میں داخل ہے، لہذا ان اضافی ایم بیز (MBs) کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم:(البقرة، الایة: 278- 279)
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
الاشباہ و النظائر: (226/1، ط: دار الکتب العلمیة)
"کل قرض جر نفعا فھو ربا".
الدر المختار: (171/5، ط: دار الفکر)
(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر)المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي.
رد المحتار: (166/5، ط: دار الفکر)
"قوله: كل قرض جر نفعاً حرام) أي: إذا كان مشروطاً''.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی