سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! آل رسول، اہل بیت اور ہاشمی خاندان میں کیا فرق ہے؟ کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر صاحبزادیوں کی اولاد بھی آل رسول میں داخل ہیں؟ نیز کیا ان میں سے کسی کو زکوۃ دی جا سکتی ہے؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ اہل بیت سے مراد نبی کریم ﷺکی ازواج مطہرات (رضی اللّٰہ عنھن)، آپ کی اولاد اور حضرت علی (رضی اللّٰہ عنہ) ہے۔
البتہ آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن کے مطابق اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد ہے، اور اکثر نے آپ کے وہ تمام قرابت دار مراد لیے ہیں، جن کے لیے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، اور بعض کے نزدیک اس سے مجازاً تمام امتِ مسلمہ مراد ہے۔
بہر حال آل رسول کے ان تینوں مصداقوں میں حضرت فاطمہ کے علاوہ دیگر صاحبزادیاں اور ان کی اولاد بھی شامل ہے۔
ہاشم نبی کریم ﷺ کے پردادا تھے، ہاشم کی تمام اولاد "بنو ہاشم" کہلاتی ہے، البتہ زکوۃ کے معاملے میں بنو ہاشم کا مصداق وہی لوگ ہیں، جنہیں سید کہا جاتا ہے۔ جہاں تک سید کو زکوۃ دینے کا معاملہ ہے تو سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (باب ترك استعمال آل النبي، رقم الحدیث: 1072، ط: دار احیاء الکتب العلمیة)
حدثنا هارون بن معروف، حدثنا ابن وهب، أخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي، أن عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، أخبره أن أباه ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب، والعباس بن عبد المطلب قالا: لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس، ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم وساق الحديث بنحو حديث مالك، وقال فيه: فألقى علي رداءه، ثم اضطجع عليه، وقال: أنا أبو حسن القرم، والله، لا أريم مكاني حتى يرجع إليكما ابناكما، بحور ما بعثتما به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. وقال في الحديث: ثم قال لنا «إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد».
البحر الرائق: (265/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
'' (قوله: وبني هاشم ومواليهم) أي لا يجوز الدفع لهم ؛ لحديث البخاري: «نحن - أهل بيت - لا تحل لنا الصدقة»، ولحديث أبي داود: «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لا تحل لنا الصدقة» ''۔
الھندیة: (الباب السابع فی المصارف، 189/1، ط: دار الفکر)
ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في السراج الوهاج.
مقدمة رد المحتار: (13/1، ط: دار الفکر)
(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته - صلى الله عليه وسلم - الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل جميع أمة الإجابة وإليه مال مالك واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك شرح التحرير.
وذكر القهستاني أن الثاني مختار المحققين.
احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام: (309/1، ط: السنة المحمدیة)
الرَّابِعُ: اخْتَلَفُوا فِي " الْآلِ " فَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ: أَنَّهُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ. وَقَالَ غَيْرُهُ: أَهْلُ دِينِهِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ} [غافر: 46]
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی