سوال:
السلام علیکم، محترم مفتی صاحب !
آپ سے شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم کے بارے میں مشورہ اور رہنمائی چاہئیے، میرے والد صاحب انتقال فرما گئے ہیں اور سوگواران میں بیوہ، چار بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑ گئے ہیں، آپ ہمیں فتوی عنایت فرما دیں کہ کتنا فیصد حصہ بیوہ، لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم ہوگا؟
برائے مہربانی آپ ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ اس ذمہ داری کو ہم شریعت کے مطابق خوش اسلوبی سے انجام دے پائیں، شکریہ
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی سے پورا کرنے کے بعد باقی پورے ترکہ (خواہ منقولی ہو یا غیر منقولی ) کو اٹھاسی (88) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو گیارہ (11)، چار بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو چودہ (14) اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو
بیوہ کو %12.5 فیصد
ہر ایک بیٹے کو % 15.90 فیصد
ہر ایک بیٹی کو % 7.95 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ....الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ....الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی