سوال:
مفتی صاحب ! کیا ایجوکیشنل ٹاپک پر خواتین اپنی آواز میں ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپلوڈ کر سکتی ہیں؟
جواب: یوٹیوب، فیس بک وغیرہ پر ویڈیوز کے ذریعہ سے آمدنی چند شرائط کی رعایت کے ساتھ جائز ہے۔
(1) ویڈیوز اور اس پر چلنے والے اشتہارات، خواتین کی تصاویر، میوزک اور دوسرے شرعی منکرات پر مشتمل نہ ہوں۔
(2) جو ویڈیوز اپلوڈ کی جائیں، وہ صرف جائز اور فائدہ مند معلومات پر مشتمل ہوں۔
(3) اگر ویڈیوز میں کسی کاروبار یا کسی اسکیم کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہو، تو وہ کاروبار یا اسکیم جائز ہونا چاہیے۔
لہذا اگر ان شرائط کی رعایت رکھی جائے، تو پھر اس کے ذریعہ سے کمائی جائز ہے۔
صحیح قول کے مطابق عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں ہے، لیکن بلا ضرورت عورت کو اپنی آواز مردوں تک پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر عورت اپنی آواز بتکلف نرم نہیں کرتی، بلکہ اپنی فطری آواز میں ہی ویڈیوز بناتی ہے، جس سے مردوں کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو، تو اس کے لیے آواز ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر اپلوڈ کرنے کی گنجائش ہے، البتہ عورت کی آواز میں فطرتاً نرمی اور لطافت ہوتی ہے، نیز ایسے موقع پر عموما آواز میں بتکلف نرمی اور لطافت پیدا کی جاتی ہے٬ جس سے فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے، لہذا بلا ضرورت اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المبسوط للسرخسي: (133/1، ط: دار المعرفة)
وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالْأَذَانِ وَالْمَرْأَةُ مَمْنُوعَةٌ مِنْ ذَلِكَ لِخَوْفِ الْفِتْنَةِ، فَإِنْ صَلَّيْنَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ جَازَتْ صَلَاتُهُنَّ مَعَ الْإِسَاءَةِ لِمُخَالَفَةِ السُّنَّةِ وَالتَّعَرُّضِ لِلْفِتْنَةِ.
غمز عيون البصائر: (383/3، ط: دار الکتب العلمیة)
وصوتها عورة في قول في شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة وإنما يؤدي إلى الفتنة وفي النوازل نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولذا قال عليه الصلاة والسلام التسبيح للرجال والتصفيق للنساء فلا يجوز أن يسمعها الرجل كذا في الفتح۔
رد المحتار: (فصل في النظر و اللمس، 406/1، ط: دار الفکر)
نغمۃ المرأۃ عورۃ … ذکر الإمام أبو العباس القرطبي في کتابہ في السماع: ولا یظن من لا فطنۃ عندہ أنا إذا قلنا صوت المرأۃ عورۃ، أنا نرید بذٰلک کلامہا؛ لأن ذٰلک لیس بصحیح، فإنا نجیز الکلام مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجۃ إلی ذٰلک، ولا نجیز لہن رفع أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا، لما في ذٰلک من استمالۃ الرجال إلیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن تؤذن المرأۃ، قلت: ویشیر إلی تعبیر النوازل بالنغمۃ۔
فقه البیوع: (325/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، إن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن غالب استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمنية في بيعه مطلقا، إلا إذا تمحض لمحظور، ولكن نظرا إلى أن معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی