عنوان: "کیا اس خیر کے بعد کوئی شر کا زمانہ آئے گا؟" حدیث میں نبی کریم ﷺ کی طرف سے فتنے کے زمانے میں زندگی گزارنے کے لیے رہنما اصول(8170-No)

سوال: مندرجہ ذیل حدیث کی تصدیق فرمادیں: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت محمد ﷺ سے خیر کی باتیں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ ﷺ سے شر کے بارے میں تحقیق کیا کرتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے لا علمی کی وجہ سے پہنچ جائے، فرماتے ہیں: میں نے ایک دفعہ عرض کیا یارسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر میں پھنسے ہوئے تھے، حق تعالیٰ شانہ نے (آپ کی بدولت) ہمارے پاس یہ خیر (اسلام) بھیج دی تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں! میں نے کہا اور اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی؟ حضور ﷺ نے فرمایا : ہاں! مگر اس میں کدورت ہو گی، میں نے کہا کدورت کیا ہوگی؟ حضور ﷺ نے فرمایا: کچھ لوگ ہوں گے، جو میری سنت کے بجائے دوسری چیزوں کی تلقین کریں گے، ان میں نیک و بد کی آمیزش ہوگی، میں نے کہا یارسول اللہ! ذرا ان کا حال تو بیان فرمائیے، حضورﷺ نے فرمایا: وہ ہماری ہی قوم سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے، میں نے عرض کیا: اگر یہ برا وقت مجھ پر آجائے تو آپ مجھے کیا ہدایت فرماتے ہیں؟
حضور ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا، میں نے کہا: اگر اس وقت نہ مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ امام تو پھر؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ان تمام فرقوں سے الگ رہو، خواہ تمہیں کسی درخت کی جڑ میں جگہ بنانا پڑے، حتی کہ اسی حالت میں تمہاری موت آ جائے۔

جواب: سوال میں مذکور الفاظ صحیح بخاری کی حدیث کا ترجمہ ہیں، جبکہ اس کی روشنی میں بیان کی گئی تشریح غیر واضح ہے، لہذا ذیل میں اس حدیث کو مکمل سند، متن، ترجمہ اور مختصر تشریح کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:
- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الحَضْرَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الخَوْلاَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: "نَعَمْ" قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: "نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ" قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: "قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ" قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: "نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: "هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا". قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ: "فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ".
(صحيح البخاري: رقم الحدیث: 3606)

ترجمہ:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میرے ساتھی صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے، لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور برے حالات میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر (اسلام) عطا فرمائی، اب کیا اس خیر کے بعد کوئی شر کا زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا؟ (یعنی وہ خیر محض نہیں ہوگی، بلکہ اس میں کدورت ہوگی، جیسے آگ میں دھواں ہو تو وہ خالص آگ نہیں ہوتی) میں نے عرض کیا: اس خیر میں وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگ ہوں گے، جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے، ان میں کوئی بات اچھی ہوگی اور کوئی بات بری ہوگی۔ (بعض باتیں جائز اور بعض باتیں نا جائز ہوں گی،) میں نے سوال کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! کچھ لوگ جہنم کے دروازوں (گمراہی) کی طرف بلانے والے ہوں گے، جو ان کی بات قبول کرے گا، اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔
(اس سے دین حق سے بھٹکانے والے باطل فرقوں کے لوگ مراد ہیں)
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان لوگوں کے کچھ اوصاف بھی بیان فرما دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہمارے ہی کنبے کے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کی کیا ہدایت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چپکے رہنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام موجود ہو، (تب میں کیا کروں)؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سے جدا رہنا، اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو۔
تشریح:
مذکورہ بالا حدیث کے شروع میں یہ بات بيان كى گئی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کى فکر لاحق تھى کہ کسى طرح نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے آئندہ زمانے میں پیش آنے والے احوال کے متعلق ہدایات محفوظ کر لوں، تاکہ اس زمانے میں کسى فتنے کا شکار نہ ہوں، اس سلسلے میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب آخر زمانے میں فتنہ پھیل جائے، تو اس موقع پر مسلمانوں کى اجتماعیت کے ساتھ رہنا، مسلمانوں کے امیر کى (جائز امور میں) اطاعت کرتے رہنا، لیکن اگر مسلمانوں کى اجتماعیت باقی نہ رہے، بلکہ وہ مختلف جماعتوں اور فرقوں میں بٹےہوئے ہوں، یا مسلمانوں کا کوئی امیر نہ ہو، تو پھر کسى ایک جماعت کى اتباع کے بجائے ان سے الگ تھلگ رہنا، خواہ تمہیں اس الگ رہنے میں کتنى ہى مشقت برداشت کرنا پڑے۔
نیز یہاں یہ بھى واضح رہے کہ جن فرقوں سے کنارہ کشی کا حکم دیا گیا ہے، اس سے باطل نظریات والے فرقے مراد ہیں، جو اہل السنة والجماعة کے طریقے سے ہٹ گئے ہوں، کیوں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانيةً لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملةً وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملةً، كلهم في النار إلا ملة واحدة، قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: «ما أنا عليه وأصحابي»".
(سنن الترمذی:ج5، ص26، باب افتراق الأمة، ط: دار إحیاء التراث العربي
)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت پر بھی وہی حالات آئیں گے، جیسے بنی اسرائیل پر آئے، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی شخص نے اپنی ماں سے اعلانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا، جو یہ کام کرے گا، اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی، سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک جماعت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کون ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس طریقے پر میں اور میرے صحابہ ہیں (اس کے مطابق چلنے والی جماعت)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

عمدة القاري: (140/16، ط: داراحیاء التراث العربی)
"قَوْله: (دخن) ، بِفَتْح الدَّال الْمُهْملَة وَالْخَاء الْمُعْجَمَة: وَهُوَ الدُّخان، وَالمعْنَى: لَيْسَ خيرا خَالِصا، وَلَكِن يكون مَعَه شوب وكدورة بِمَنْزِلَة الدُّخان فِي النَّار، وَقيل: الدخن الْأُمُور الْمَكْرُوهَة، قَالَه ابْن فَارس، وَقَالَ صَاحب (الْعين) : الدخن الحقد، وَقَالَ أَبُو عبيد: تَفْسِيره فِي الحَدِيث الآخر، وَهُوَ قَوْله: لَا ترجع قُلُوب قوم على مَا كَانَت عَلَيْهِ، وَفِي (الْجَامِع) : هُوَ فَسَاد فِي الْقلب وَهُوَ مثل الدغل، وَقَالَ النَّوَوِيّ: المُرَاد من الدخن أَن لَا تصفو الْقُلُوب بَعْضهَا لبَعض وَلَا ترجع إِلَى مَا كَانَت عَلَيْهِ من الصفاء".

مرقاة المفاتيح: (3382/8، ط: دار الفکر)
"(قلت: فما تأمرني) أي: أن أفعل به فيهم (إن أدركني ذلك؟) أي ذلك الزمان (قال: " تلزم جماعة المسلمين ") أي: طريقتهم وحضور جمعتهم وجماعتهم (" وإمامهم ") أي: ورعاية إمامهم ومتابعتهم ومساعدتهم، (قلت: فإن لم يكن لهم جماعة) أي: متفقة (ولا إمام؟) أي: أمير يجتمعون عليه، وهو يحتمل فقدهما أو فقد أحدهما (قال: " فاعتزل تلك الفرق كلها ") ، أي: الفرق الضالة الواقعة على خلاف الجادة من طريق أهل السنة والجماعة، (" ولو أن تعض بأصل شجرة ") أي: ولو كان الاعتزال بالعض، وأن: مصدرية، وتعض: منصوب في النسخ المصححة والأصول المعتمدة، وقيل: إن مخففة من المثقلة. قال التوربشتي رحمه الله: أي: تمسك بما يصبرك وتقوى به على اعتزالك، ولو بما لا يكاد يصح أن يكون متمسكا. قال الطيبي - رحمه الله: هذا شرط يعقب به الكلام تتميما ومبالغة، أي: اعتزل الناس اعتزالا لا غاية بعده، ولو قنعت فيه بعض أصل الشجر افعل فإنه خير لك، (" حتى يدركك الموت وأنت على ذلك ") أي: على ما ذكرت من الاعتزال أو العض أو الخير".

فتح الباري لابن حجر: (36/13، ط: دار المعرفة)
"وقوله: (وأنت على ذلك) أي العض وهو كناية عن لزوم جماعة المسلمين وطاعة سلاطينهم ولو عصوا قال البيضاوي المعنى إذا لم يكن في الأرض خليفة فعليك بالعزلة والصبر على تحمل شدة الزمان وعض أصل الشجرة كناية عن مكابدة المشقة كقولهم فلان يعض الحجارة من شدة الألم أو المراد اللزوم كقوله في الحديث الآخر".

و فیه ایضاً: (37/17، ط: دار المعرفة)
"قال الطبري: والصواب أن المراد من الخبر لزوم الجماعة الذين في طاعة من اجتمعوا على تأميره فمن نكث بيعته خرج عن الجماعة قال وفي الحديث أنه متى لم يكن للناس إمام فافترق الناس احزابا فلا يتبع أحدا في لفرقة ويعتزل الجميع إن استطاع ذلك خشية من الوقوع في الشر وعلى ذلك يتنزل ما جاء في سائر الأحاديث وبه يجمع بين ما ظاهره الاختلاف".

تكملة فتح الملهم: (باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين)
قال شيخ الإسلام والمسلمين العلامة المفتي محمد تقي العثماني حفظه الله تعالى: والذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه من معنى الحديث: أن المعتزل إذا لم يجد شيئا يأكله بسبب عزلته، حتى اضطر إلى أكل أصول الأشجار فليفعل، ولا يمنعه ذلك عن الاعتزال، والله سبحانه أعلم.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 894 Aug 16, 2021
fitno kay zamanay mai kia karna chahiye? aan hazrat sallaho alaihi wassallam ki chand rehnuma hidayat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.