سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرے خاوند کے دو بھائی اور ایک والدہ ہیں، میرے سسر کئی سال پہلے فوت ہو چکے ہیں، اب میرے شوہر کا بھی انتقال ہوگیا ہے، میری ایک بیٹی ہے، میرے دونوں دیور کہتے ہیں کہ سسر کی جائیداد میں آپ کا اور آپ کی بیٹی کا شرعاً کوئی حصہ نہیں بنتا ہے۔ براہ کرم آپ شرعی رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
جواب: واضح رہے کہ سسر کی میراث میں بہو کا کوئی حصہ نہیں ہے، ہاں ! اگر شوہر کی زندگی میں سسر (شوہر کے والد) کا انتقال ہو جائے اور بعد میں شوہر (بیٹے) کا انتقال ہو جائے تو والد کی میراث میں سے مرحوم بیٹے کو ملنے والا حصہ مرحوم بیٹے کے انتقال کے بعد مرحوم کی بیوی، بچوں اور دیگر شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں مرحوم بیٹے کو اپنے والد کی میراث میں سے ملنے والا حصہ اس کے شرعی ورثاء (بیوی، بیٹی، والدہ اور دو بھائیوں) میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا، لہذا آپ کے دیوروں کو چاہیے کہ بھابھی اور بھتیجی کو ان کا شرعی حصہ دے دیں، ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔
احادیثِ مبارکہ میں ورثاء کو ان کا حصہ نہ دینے پر بڑی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص ( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی ظلماً لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔
دوسری حدیثِ مبارکہ میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، ص: 254، ط: قدیمی)
عن سعید بن زید رضی اﷲ عنہ قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من اخذ شبراً من الارض ظلماً فانہ یطوقہ‘ یوم القیامۃ من سبع ارضین متفق علیہ۔
مشکوٰۃ المصابیح: (ص: 266، ط: قدیمی)
عن انس قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم من قطع میراث وارثہ قطع اﷲ میراثہ من الجنۃ یوم القیمۃ۔
الھندیة: (الباب الثانی فی ذوی الفروض، 447/6، ط: دار الفکر)
و يستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب و هو القرابة، و السبب وهو الزوجية، والولاء
الموسوعة الفقهية الکویتية: (22/3، ط: دار السلاسل)
وللإرث شروط ثلاثة … ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی