سوال:
ایک شخص یہ کہتا ہے کہ جن سے اجتہادی غلطی ہوسکے، وہ "معیارحق" نہیں ہوسکتے، چونکہ صحابہ کرام سے بھی اجتہادی غلطی ہوئی ہے، اس لیے صحابہ کرام معیار حق نہیں ہیں۔ نیز اس کا کہنا یہ ہے کہ دلیل کی بنیاد پر صحابہ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، کیونکہ معیارِ حق صرف قرآن و حدیث ہیں۔ برائے مہربانی آپ صحیح بات کی طرف رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال میں دو باتیں پوچھی گئی ہیں:( ۱) کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین "معیار حق" ہیں؟ (۲) معیار حق صرف قرآن و حدیث ہے، کیونکہ صحابہ کرام سے اجتہادی خطا ہوئی ہے اور جس سے اجتہادی خطا ہو، وہ معیار حق نہیں ہو سکتا۔
ان دونوں باتوں کا مختصر جواب یہ ہے:
۱) جمہور اہل سنت و الجماعت کے نزدیک جس طرح "قرآن و حدیث " معیار حق ہیں، اسى طرح جن مسائل میں "قرآن وحدیث" کى واضح نصوص نہ ہوں تو ان مسائل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہى "معیار حق" ہیں۔
۲) اگر انہیں اجتہادی خطا کی وجہ سے معیار حق قرار نہیں دیا جائے گا تو خود "قرآن و حدیث" پر کیسے اعتماد قائم رہے گا؟ کیونکہ "قرآن و حدیث" کو امت تک پہنچانے کا اولین اور بنیادی واسطہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ اگر ان پر سے اعتماد ختم کیا جائے گا تو نہ قرآن کا ثبوت ممکن رہے گا اور نہ ہی حدیث کا اور پھر خود قرآن و حدیث کا "معیار حق" ہونا بھی مخدوش ہو جائے گا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفى ﷺ خاتم النبیین ہیں، آپ ﷺ کی شریعت کو آخری شریعت اور قیامت تک آنے والوں کے لیے آخری قانون قرار ديا گیا ہے، چنانچہ اس کے لیے دو باتوں کی ضرورت تھی: ایک یہ کہ آسمانی قانون قیامت تک کے لیے جوں کا توں محفوظ رہے، ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہو، الفاظ بھى محفوظ رہیں اور ان کے معانی بھی محفوظ رہیں۔
دوسرى یہ کہ جس طرح اس دین کى علمی حفاظت ہو، اسی طرح اس کى عملی حفاظت بھی ہو، اس لیے ضروری تھا کہ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام کی علمی و عملی دونوں پہلؤوں سے حفاظت کی جائے اور قیامت تک ایک ایسی جماعت کا سلسلہ قائم رہے جو شریعتِ مطہرہ کے علم و عمل کی حامل و امین ہوں، چنانچہ حق تعالیٰ نے دین محمدی کی دونوں طرح (علمی اور عملی )حفاظت فرمائی۔
انہى حفاظتِ دین کے ذرائع میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت سرفہرست ہے۔ آنحضرت ﷺ کی علمی و عملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جارہی تھی، اس لیے ضروری تھا کہ یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لیے قابل اعتماد ہوں۔ چنانچہ حضراتِ صحابہ کرام اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہیں، جن کی تعلیم و تربیت اورتصفیہ و تزکیہ کے لیے سرورِ کائنات محمد رسول اللہ ﷺ کو مُعَلّم، مربِّى اور استاذ مقرر کیا گیا، ان حضرات نے براہ ِراست صاحبِ وحی ﷺ سے دین کو سمجھا، دین پر عمل کیا اور اپنے بعد آنے والی نسلوں تک دین کو مِن و عَن پہنچایا۔
انہوں نے آپ ﷺ کے زیرِ تربیت رہ کر اخلاق واعمال کو ٹھیک ٹھیک منشائے خداوندی کے مطابق درست کیا، سیرت و کردار کی پاکیزگی حاصل کی، تمام باطل نظریات سے کنارہ کش ہو کر صحيح عقائد اختیار کیے، رضائے الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ رسول اللہ ﷺ کے قدموں پر نچھاور کردیا، ان کے کسی طرزِ عمل میں ذرا سى بھى خامی نظر آئی تو فوراً اللہ تعالى نے اس کی اصلاح فرمائی، جس کى گواہى قرآن کریم کى ان آیات کے شان نزول سے ملتى ہے: (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ أَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ أٰیٰـتِـہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ) (آل عمران: آیت نمبر:164)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین قرآن کریم کى نظر میں:
ان حضرات کى تعلیم و تربیت، تزکیہ و تصفیہ کى تکمیل کے بارے میں خود اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن کریم میں درج ذیل آیات نازل فرمائیں:
(۱) ان کے صدق و اخلاص کى گواہى دى اور اُنہیں یہ بلند مقام عطا فرمایا کہ ان کو رسالتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام) کے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش فرمایا:(مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَا ھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ أَثَرِالسُّجُوْدِ)(سورۃ الفتح: آیت نمبر:29)
ترجمہ: محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں، (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہرے پر نمایاں ہیں۔
گویا یہاں مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ (محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں) ایک دعویٰ ہے اور اس کے ثبوت میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و کردار کو پیش کیا گیا ہے کہ جسے آنحضرت ﷺکی صداقت میں شک وشبہ ہو، اسے آپ ﷺ کے ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا ایک نظر مطالعہ کرنے کے بعد خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہیے کہ جس کے رفقاء اتنے بلند سیرت اور پاکباز ہوں، وہ خود صدق و راستی کے کتنے اونچے مقام پر فائز ہوں گے؟
(۲) حضراتِ صحابہؓ کے ایمان کو "معیارِ حق" قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی، بلکہ ان حضرات کے بارے میں لب کشائی کرنے والوں پر نفاق و سفاہت کی دائمی مہر ثبت کردی گئی:وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ[سورۃالبقرة: آیت نمبر:13]
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جیسے بے وقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ خوب اچھی سن لو کہ یہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے۔
(۳) حضراتِ صحابہ کرامؓ کو بار بار "رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ" (اللہ ان سے راضی ہوا، وہ اللہ سے راضی ہوئے) کی بشارت دی گئی اور اُمت کے سامنے یہ اس شدت و کثرت سے دہرایا گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ لقب اُمت کا تکیہ کلام بن گیا، کسی نبی کا اسم گرامی آپ "عَلَیْہِ السَّلام" کے بغیر نہیں لے سکتے اور کسی صحابیِ رسول (ﷺ) کا نامِ نامی "رَضِيَ اللہُ عَنْہُ" کے بغیر مسلمان کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ظاہر کو دیکھ کر راضی نہیں ہوا، نہ صرف ان کے موجودہ کارناموں کو دیکھ کر، بلکہ ان کے ظاہر وباطن اور حال و مستقبل کو دیکھ کر ان سے راضی ہوا ہے۔
کسی اور کے بارے میں توظن و تخمین ہی سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہے یا نہیں؟ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں تو نصِ قطعی (قرآن کریم کی آیات) موجود ہے، اس کے باوجود اگر کوئی ان سے راضی نہیں ہوتا تو گویا اُسے اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہے اور پھر اتنی بات کو کافی نہیں سمجھا گیا کہ "اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا"، بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ ان حضرات کی عزت افزائی کی انتہا ہے۔
(۴) حضرات صحابہ کرامؓ کے مسلک کو "معیاری راستہ" قرار دیتے ہوئے، اس کی مخالفت کو براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے ہم معنی قراردیا گیا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو وعید سنائی گئی۔وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا(سورۃالنساء: آیت نمبر: 115)
ترجمہ: اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنین کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
آیت میں "الْمُؤْمِنِیْنَ" کا اولین مصداق اصحاب النبی کی مقدس جماعت ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اتباعِ نبوی کی صحیح شکل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت و کردار اور ان کے اخلاق و اعمال کی پیروی میں منحصر ہے اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کیا جائے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:"معلوم شدکہ ہر کہ خلافِ راہ مومنان اختیار نمود مستحق دوزخ شدو مومنین دروقت نزول ایں آیت نبو دند مگر صحابہ". (تحفۂ اثناء عشریہ ص: 600، بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: ج: 3، ص: 98)
ترجمہ: یعنی معلوم ہوا کہ جس نے مومنین کے خلاف راستہ اختیار کیا، وہ مستحقِ دوزخ ہوا اور اس آیت کے نزول کے وقت مومنین صحابہ ہی تھے۔
اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کا طریقہ "حق" اور "ہدایت" کا طریقہ ہے اور وہ ہمارے لیے نمونہ ہے، لہٰذا جو ان کے طریقہ کے خلاف چلے گا، وہ گمراہ ہوجائے گا۔
(۵) اور سب سے آخری بات یہ کہ اُنہیں آنحضرت ﷺکے سایۂ عاطفت میں آخرت کی ہر عزت سے سرفراز کرنے اور ہر ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھنے کا اعلان فرمایا گیا:
یَوْمَ لَا یُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِيَّ وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ أَیْدِیْھِمْ وَبِأَیْمَانِھِمْ(سورۃالتحریم: آیت نمبر:8)
ترجمہ: اس دن جب اللہ نبی کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو رسوا نہیں کرے گا۔ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا۔
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا [سورۃالأحزاب: آیت نمبر:43]
ترجمہ: وہی ہے جو خود بھی تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحبؒ فرماتے ہیں:"مخاطب بایں آیت صحابہ اندو ہر کہ تابع ایشاں شد نیز از ظلمات برآمد الخ".(تحفہ اثنا عشریہ، بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: ج: 3، ص: 98)
ترجمہ: یعنی اس آیت کے مخاطبین صحابہ ہیں، (کہ اللہ نے ان کو ظلمات سے نکالا) اور جو اِن کے تابع ہوا وہ بھی اندھیریوں سے نکلا، کیونکہ ظاہر ہے کہ جو اندھیری رات میں مشعل لے کر نکلے تو جو اس کے ہمراہ ہوتا ہے، وہ بھی تاریکی سے خلاصی پالیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جو صحابہ کے طریقہ پر چلے گا، راہ یاب ہوگا اور جو سرِ مُو اِن کے طریقہ سے ہٹے گا، گمراہ ہوجائے گا۔
چند اعزازات خداوندى جو صحابہ کرام کو اللہ تعالى نے عطا فرمائے:
١) (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ، أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ) (سورۃالحجرات:آیت نمبر:۷)
ترجمہ: اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑ جاو۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پر کشش بنا دیا ہے اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھادی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔
٢) أُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ(سورۃالمجادلۃ:آیت نمبر:22)
ترجمہ: يہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنى روح سے ان کى مدد کى ہے۔
٣) وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (سورۃالتوبۃ: آیت نمبر:۱۰۰)
ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکى کیساتھ ان کى پیروى کى، اللہ ان سب سےراضى ہو گیا ہے، اور وہ اس سے راضى ہیں۔
٤)فَإِنْ أٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا
(سورۃالبقرۃ: آیت نمبر: ۱۳۷)
ترجمہ: اس كے بعد اگر یہ لوگ بھى اسى طرح ایمان لے آئیں، جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آ جائیں گے۔
٥)کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(سورۃ آل عمران: آیت نمبر: ۱۱۰)
ترجمہ: (مسلمانو!) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائى گئى ہے۔
٦) وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا(سورۃالبقرۃ: آیت نمبر:۱۴۳)
ترجمہ: اور (مسلمانو!) اسى طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے۔
٧) قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ(سورۃ یوسف: آیت نمبر:۱۰۸)
ترجمہ: (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے، میں بھى پورى بصیرت کے ساتھ اللہ کى طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میرى پیروى کى ہے وہ بھى۔
٨) وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی(سورۃالحدید: آیت نمبر:۱۰)
ترجمہ: يوں اللہ نے بھلائى کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے۔
یہ اور اس قسم کی بیسیوں، بلكہ سینکڑوں آیات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب مختلف عنوانات سے بیان فرمائے گئے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اگر دین کے سلسلے کی پہلی کڑی یعنى حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ناقابلِ اعتماد ثابت ہوں(معاذ اللہ) ، ان کے اخلاق و اعمال میں خرابی نکالی جائے اور ان کے بارے میں یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ دین کی علمی و عملی تدبیر نہیں کرسکے تو دینِ اسلام کا سارا ڈھانچہ ہى ہل جاتا ہے اور خاکم بدہن! رسالتِ محمدیہؐ مجروح ہوجاتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کى نظر میں:
یہ تو قرآن کریم کى آیات تھیں، اب ذرا یہ بھى ملاحظہ فرما لیں کہ جناب نبی کریم ﷺنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعارف کیسے کروایا؟ ان کے بے شمار فضائل كس قدر بیان فرمائے؟ چنانچہ آپ ﷺنے اپنے صحابہ کى ہر قسم کى تعلیم و تربیت اور تزکیہ و تصفیہ فرمانے کے بعد دنیا کے سامنے اپنے ان انمول ہیروں کو رکھا اور ان کى خصوصیات، امتیازات اور اعزازات مکمل تفصیل سے بیان فرمائے۔
کسى صحابى کى صداقت، کسى کى عدالت، کسى کى حیاء و عفت، کسى کى شجاعت، کسى کى امانت و دیانت، کسى کى علمى قابلیت، کسى کی فہم و فراست، کسى کى حلم و بردبارى، کسى کى سخاوت، کسى کے ادب، کسى کى احسان مندى، کسى کى شائستگى، کسى کى پاکیزگى، کسى کى فدائیت، کسى کا زہد وتقوى، کسى کا جہاد میں بہادری دکھانا، کسى کا شوق ِشہادت، کسى کى جنت میں سردارى، کسى کى صلہ رحمى وغیرہ، غرض صحابہ کرام کے کمالات کى ایک لمبى فہرست ہے، جو آپ ﷺنے وقتاً فوفتا ًارشاد فرمائی۔
پھر آپ ﷺ نے بالخصوص اپنے بعد آنے والے جانشین خلفائے راشدین: حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان ذو النورین، حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل کی تو انتہا کردی۔ جس کثرت اور تواتر کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب، ان کے امتيازات و خصوصیات اور ان کے اندرونی اوصاف و کمالات کو بیان فرمایا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی اُمت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انہیں عام افرادِ امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے، ان حضرات کا تعلق چونکہ براہِ راست آنحضرت ﷺ کی ذاتِ گرامی سے ہے، اس لیے ان کی محبت عین محبتِ رسول ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی کو جرم قرار دیا: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ
ترجمہ:عبداللہ بن مغفل ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے صحابہ کے معاملہ میں اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذا پہنچا ئی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ (سنن ترمذي، حدیث نمبر : 3862)
اُمت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی ادنیٰ صحابیؓ کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس لیے ان پر لعن طعن کرنے کا حق اُمت کے کسی فرد کو حاصل نہیں۔ لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِيْؓ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَابَلَغَ مُدَّ أَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ۔‘(صحیح البخاری، کتاب المناقب،ج:۱،ص:۵۱۸، ط:قدیمی)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مت برا کہو میرے اصحاب میں سے کسی کو اس لیے کہ اگر کو ئی تم میں سے اُحُد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے مُدّ یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا"۔
مقامِ صحابہؓ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ اُمت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون ومردود سمجھیں، بلکہ برملا اس کا ظہار کریں۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللهِ عَلَى شَرِّكُمْ".
(سنن الترمذي : 6/ 180، رقم الحديث: (3866 )، كتاب ابواب المناقب/ باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو: اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔
حضور اکرمﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو خود "معیارِ حق "قرار ديا ہے:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَوْعِظَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذِهِ لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ قَالَ: «..... وَمَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ، فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، وَعَلَيْكُمْ بِالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ كَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَيْثُمَا انْقِيدَ انْقَادَ»
(مسند أحمد : 28/ 367، رقم الحديث: 17142)
ترجمہ: سیدنا عرباض بن ساریہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا کہ جس سے لوگوں کی آنکھیں بہنے لگیں اور دل لرزنے لگے ، ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! یہ تو ہمیں رخصتی کا وعظ معلوم ہوتا ہے ، آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا : میں تمہیں ایسی واضح شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کے رات اور دن برابر ہیں ، میرے بعد جو بھی اس سے کجی اختیار کرے گا، وہ ہلاک ہو گا اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت سے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا تم میری جو سنت جانتے ہو اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنتوں کو اپنے اوپر لازم پکڑو اور امیر کی اطاعت اپنے اوپر لازم کر لو، خواہ وہ ایک حبشی غلام ہی ہو، ان باتوں کو اچھی طرح محفوظ کر لو ،کیونکہ مسلمان تو فرمانبردار اونٹ کی طرح ہوتا ہے کہ اسے جہاں لے جایا جائے وہ چل پڑتا ہے۔
اس حدیث میں خلفائے راشدین کے طریقہ کو ''سُنَّةِ '' کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح حضور اکرم ﷺکی سنت حجت ہے، اسی طرح خلفائے راشدین کی سنت بھی حجت ہے۔
آپ ﷺنے صحابہ کرام کى پیروى کو ہی ذریعہ نجات اخروی قرار ديا ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل ...وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي".(سنن الترمذي : 4/ 323، رقم الحديث: (2641)، أبواب الإيمان/ باب ما جاء فيمن يموت وهو يشهد أن لا إله إلا الله)
ترجمہ: عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس برے فعل کا مرتکب ہوگا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا: "یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے"۔
اس حدیث پاک میں حضور اکرم ﷺ نے "مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ" فرمایا: صرف "مَا اَنَا عَلَیْہِ" نہیں فرمایا، کیا یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیارِ حق قرار دینا نہیں ہے؟ گویا آپ نے اپنے طریقے کو اور ساتھ ہى اپنے صحابہ کرام کے طریقے کو ذریعہ نجات اخروى ارشاد فرمایا ہے، اس سے مقام صحابہ کرام کا اندازہ بخوبى ہو سکتا ہے۔
مذكوره بالا آيات اور احادیث مبارکہ سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، اسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنےالفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے کہ صحابہ کرام کى جماعت محض ایک اتفاق نہیں ہے، بلکہ من جانب اللہ یہ منتخب جماعت ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں:عن عبد الله قال: "إن الله نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد خير قلوب، ثم نظر في قلوب العباد فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد فجعلهم أنصار دينه... ".(مسند البزار :5/ 212، رقم الحديث: 1816)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺ کے دل کو ان سب دلوں میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر محمد ﷺ کےدل کے بعد دوسرے دلوں پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمد کے دلوں کو دوسرے سب بندوں کے دلوں سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی (ﷺ) کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔
اسى طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھى منقول ہے:عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ، أَبَّرَهَا قُلُوبًا، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صلّى الله عليه وسلم وَنَقْلِ دِينِهِ، فَتَشَبَّهُوا بِأَخْلَاقِهِمْ وَطَرَائِقِهِمْ فَهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ".(حلية الأولياء: 1/ 305)
ترجمہ: جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے، اس کو چاہیے کہ ان لوگوں کى اقتدا کرے، جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، وہ اصحابِ رسول اللہ ﷺہیں، یہ حضرات اس امت كے سب سے بہترین لوگ ہیں، اپنے دلوں کے اعتبار سے پاک، علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف وبناوٹ سے دور، یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین كو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لیے منتخب فرمایا ہے، سو تم ان كےاخلاق کى مشابہت اختیار کرو، ان كے طریقوں پر چلو، کیونکہ یہی لوگ حضرت محمد مصطفى ﷺکےصحابہ ہیں اور یہى لوگ سیدھے راستے پر ہیں۔
مسالک اربعہ کے ائمہ کرام رحمہم اللہ کى نظر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا مقام:
اب ہم یہاں مختصرا چاروں مذاہب کے ائمہ کرام رحمہم اللہ کے اقوال ذکر کرتے ہیں کہ ان حضرات کے نزدیک صحابہ کرام کا کیا مقام تھا؟ صحابہ کرام کے اقوال کو کس درجے کى فوقیت دیتے تھے:
۱)حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: "آخذ بكتاب الله فإن لم أجد فبسنة رسول الله فإن لم أجد فبقول الصحابة آخذ بقول من شئت منهم ولا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم".(تهذيب التهذيب : 10/ 451)
ترجمہ: میں پہلے کتاب اللہ سے استدلال کرتا ہوں، اگر اس میں مجھے دلیل نہ ملے تو رسول اللہ ﷺ کی سنت کو لیتا ہوں اور اگر اس میں بھی مجھے دلیل نہ ملے تو میں حسب مرضی صحابۂ کرامؓ کے اقوال سے استدلال کرتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کے قول کی طرف نہیں جاتا۔
۲)امام شافعى رحمه الله فرماتے ہیں:"هم فوقنا في كل علم واجتهاد، وورع وعقل، وامرٍ استدرك به علم واستنبط به. وآراؤهم لنا أَحْمَدُ وأولى بنا من آرائنا عندنا لأنفسنا ".
(مناقب الشافعي للبيهقي:1/ 442)
ترجمہ:امام شافعیؒ فرماتے ہیں: حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین علم و اجتہاد، زہد و تقوى، استنباط احکام میں ہم سے ہر اعتبار سے فوقیت رکھتے ہیں، ان کے اقوال ہمارے اقوال و اجتہاد سے مقدم ہیں۔
۳)حضرت امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں:"قال مالك رحمه الله من شتم النبي صلى الله عليه وسلم قتل ومن شتم أصحابه أدب وقال أيضا من شتم أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أبا بكر أو عمر أو عثمان أو معاوية أو عمرو بن العاص فإن قال كانوا على ضلال وكفر قتل"
(الشفا بتعريف حقوق المصطفى :2/ 308)
ترجمہ: امام مالک فرماتے ہیں: جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ میں سے کسی کو برا بھلا کہا، خواہ ابوبکر،عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم ہوں یا حضرت معاویہؓ اور عمرو بن العاصؓ ہوں، اگر یوں کہا کہ وہ کافر اور گمراہ تھے تو اسے قتل کیا جائے گا۔
۴)حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وقال في الرسالة التي رواها أبو العباس أحمد بن يعقوب الإصطخري وغيره: وخير الأمة بعد النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر وعمر بعد أبي بكر وعثمان بعد عمر وعلي بعد عثمان ووقف قوم وهم خلفاء راشدون مهديون ثم أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هؤلاء الأربعة خير الناس لا يجوز لأحد أن يذكر شيئا من مساويهم ولا يطعن على أحد منهم بعيب ولا نقص فمن فعل ذلك فقد وجب على السلطان تأديبه وعقوبته".(الصارم المسلول على شاتم الرسول ص: 568)
ترجمہ:امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ ہیں، ابوبکرؓ کے بعد عمرؓ ہیں، عمرؓ کے بعد عثمانؓ ہیں، عثمان ؓ کے بعد علیؓ ہیں، (رضی اللہ عنہم) آخری قول میں ایک جماعت نے توقف کیا ہے، یہ ہدایت یافتہ خلفاء راشدینؓ تھے، پھر چار حضرات کے بعد سب صحابۂ کرامؓ سب سے افضل ہیں، کسی کو جائز نہیں کہ ان کی برائی کرے، کسی میں کوئی عیب اور نقص کی وجہ سے اعتراض نہ کرے، جس نے ایسا کیا تو حاکم کے لیے اسے سزا دینی واجب ہے۔
سابقہ تحریر سے یہ بات واضح ہو چکى ہے کہ "صحابہ کرام "جس مقدس گروہ کا نام ہے، وہ امت کے عام افراد و رجال کى طرح نہیں ہے، انہیں یہ خاص مقام اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺنے عطا کیا ہے، لہذا صحابہ کرام کے مرتبے کو تاریخ کى رطب و یابس روایات سے معلوم نہیں کیا جاسکتا، اس لیے تاریخ کى ان روایات کو جو صریح نصوص قرآنى کے خلاف ہوں، قابل التفات نہیں سمجھا جائے گا۔
رسول اکرم ﷺ کى اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کى فقہى تربیت اورآپ کى نظر میں ان کے اجتہاد کى حیثیت:
اب ہم اس بات کا بھى جائزہ لیتے ہیں کہ سوال ميں جو دعوى کیا گیا ہے کہ اجتہادى خطا سرزد ہونے سے "معیار حق " ہونے کى صلاحیت ختم ہو جاتى ہے۔ یہ محض ایک سطحى اور بے بنیاد بات ہے جو شخص اجتہاد کى حقیقت و ضرورت، اجتہاد کى شرائط اور اس کے مواقع سے واقف نہ ہو، وہ اس بے بنیاد بات سے جلد متاثر ہوجاتا ہے، اس لیے مختصراً ہمیں اجتہاد کى حقیقت، اس کى ضرورت و مواقع اور "تفقہ فی الدین" (فقہى بصیرت) کى اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔
قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کے فرائض منصبى کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے: "ویعلمہم الکتاب والحکمۃ" (وہ انہیں کتاب الہى اور حکمت و دانائى کى تعلیم دیں گے) نامور مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس آیت میں"حکمت" سے حلال و حرام کا فہم اور دینى تفقہ (فقہى بصیرت)مراد ہے۔
صحيح بخاري (1/ 24) میں ہے: وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين".رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالى جس بندے سے خیر کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین میں تفقہ (فقہى بصیرت) عطا فرماتا ہے، گویا فقہى بصیرت اللہ تعالى کے پسندیدہ بندوں کو حاصل ہوتى ہے، چنانچہ آنحضرت ﷺنے اجتہاد اور فقہى بصیرت پر خود بھى عمل فرمایا اور"خیرِ امت" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو حکمت کى تعلیم دے کر ان میں فقہى بصیرت، اجتہادى صلاحتیں اور دین کے صحیح فہم کو پروان چڑھایا۔
یوں تو ہر صحابى ہى فقیہ تھا، اسے نبى اکرم ﷺ کى صحبت سے جو دین کا صحیح فہم اور بصیرت حاصل ہوا تھا، اس کا یہى تقاضا تھا کہ آپ ﷺ نے بالعموم اپنے ہر صحابى کو یہ سند عطا فرما دى کہ "أصحابى كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم" (ميرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ستاروں کى طرح ہیں، تم جس کى بھى پیروى کرو گے، رہنمائى پاؤ گے) لیکن کم و بیش ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام میں سے ہر ایک صحابى مجتہد نہ تھا، بلکہ محدثین نے مجتہدین صحابہ کرام کے طبقات بیان فرمائے ہیں:
(۱) وہ مجتہد صحابہ کرام جن سے بکثرت فتاوى منقول ہیں، ان کى تعداد سات ہے۔
(۲) وہ مجتہد صحابہ کرام جن سے قلیل تعداد میں فتاوى منقول ہیں، ان کى تعداد تیرہ ہے۔
(۳) وہ مجتہد صحابہ کرام جن سے ایک دو فتوے منقول ہیں، ان کى تعداد ایک سو بیس ہے۔
ان صحابہ کرام رضى اللہ عنہم اجمعین کے اجتہادات کا آغاز نبى اکرم ﷺ کى زندگى ہى میں ہو گیا تھا، احادیث میں بے شمار واقعات ہیں کہ صحابہ کرام نے نبى اکرم ﷺکى موجودگى ہى میں کوئى اجتہاد کیا، اس پر آپ نے ان کی تصحیح فرمائى، کسى صحابى کے اجتہاد کو پسند فرما کر نہ صرف اس کى تحسین فرمائى، بلکہ ان کو اپنى زندگى ہى میں فتوى کى اجازت عطا فرما دى تھى، محدثین نے ایسے صحابہ کرام کى تعداد چودہ ذکر کى ہے، جو آنحضرت ﷺ کى موجودگى میں دینى رہنما ئی سرانجام دينے لگے تھے۔
چنانچہ آپ ﷺنے ان میں سے بعض کے کمالات وفضائل بیان فرما کر ان کو مرجع کے طور پر بیان بھى فرمایا، تاکہ وہ امت کے لیے مشعل راہ ہوں، چنانچہ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے ذکر فرمایا:
۱) جو شخص چاہتا ہو کہ قرآن کو اسى طرح پڑھے، جیسےنازل ہوا ہے، تو وہ ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کى قراءت کے مطابق پڑھے۔ (مسند أحمد :1/ 211)
۲)میرے صحابہ میں فرائض (علم میراث) کو سب سے زیادہ جاننے والا زید بن ثابت ہے۔
۳)حلال و حرام کی سب سے زیادہ پہچان رکھنے والا معاذ بن جبل ہے۔ (مسند أحمد :21/ 406)
۴)میرے صحابہ میں قضا و تحکیم (فیصلوں) سب سے زیادہ جاننے والاعلى بن ابى طالب ہے۔(سنن ابن ماجة:1/ 161)
۵)میرے صحابہ میں سب سے زیادہ قراءت کرنے والے (قراءت میں ماہر) ابی بن کعب ہیں۔
۶)قرآن کریم ان چار صحابہ کرام سے سیکھو: عبد اللہ بن مسعود، سالم مولى ابى حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابى بن کعب۔(مسند أحمد:11/ 379)
اور خلفاء راشدین کا کیا ہى کہنا! ان کے طریقے کو تو خود "سنت" کا درجہ عطا فرما دیا، کیونکہ آئندہ چل کر امت کو علوم نبوت کی جو میراث حاصل ہوئی، وہ آنحضرت ﷺکے انہى شاگردوں کے ذریعہ حاصل ہوئى، بعد کے مجتہدین نے انہى صحابہ کرام کے اقوال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے استنباط و اجتہاد کى بنیاد رکھى۔
الغرض "اجتہاد "شریعت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے اس عمل کى فضیلت بیان فرمائى ہے، چنانچہ صحیح بخارى کى حدیث ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ".
ترجمہ: حاکم و قاضى جب فیصلہ کرے ، پھر وہ اپنے اجتہاد کے نتیجہ میں حق تک رسائى حاصل کرے (درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو جائے) تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اس سے اگرچوک ہوئى تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔(صحيح البخاري : 9/ 108 ، رقم الحدیث: (7352) كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة /باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ)
جناب نبی اکرم ﷺ خود بھی اجتہاد کیا کرتے تھے کہ اگر کسی مسئلہ میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی اور فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا تو آپ ﷺ اپنی صوابدید پر فیصلہ فرمایا کرتے تھے، لیکن چونکہ وحی جاری تھی اوربعض مواقع پر اللہ تعالى کى منشا کو وہ اجتہاد نہ پہنچ سکا تو وحى الہى کے ذریعے اس کى تصحیح کردى گئى، جس کى تفصیل غزوہ بدر کے قیدیوں کے فدیے سے متعلق واقعہ میں ملاحظہ کى جاسکتى ہے۔
اجتہاد کا محل ومقام:
یہاں یہ بات بھى سمجھنى چاہیے کہ کسى مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث کى صریح نص موجود نہ ہو، یا ہو، لیکن اس میں کئى معنوں کا احتمال ہو تو ایسے مسئلے کے شرعى حل کى کوشش کو "اجتہاد" کہا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ اجتہاد اصول و مقاصد شریعت کے مطابق ہو، محض اپنى رائے کى اتباع میں نہ ہو، لہذا قرآن کریم، سنت رسول اور اجماع کے اصول سمجھنے اور یاد کرنے سے پہلے اپنى" رائے" اور "قیاس " کا استعمال کرنا اور اجتہاد کرنا یہ صحیح نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ عہد رسالت سے ہى مجتہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاوى پر عمل شروع ہوگیا تھا، ان کى فقہی بصیرت و تقلید کو راہ نجات سمجھا جاتا تھا، خود نبى اکرم ﷺنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر ایسا اعتماد فرمایا کہ جس کى مثال تاریخ انسانى میں نہیں ملتى کہ کسى استاذ نے اپنے شاگرد کو اس قدر قابل اعتماد بنا کر پیش کیا ہو۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "أصاب ابن أم عبد وصدق، رضيت بما رضي الله لأمتي وابن أم عبد، وكرهت ما كره الله لأمتي وابن أم عبد".
ترجمہ:ابن ام عبد (عبد اللہ بن مسعود) نے درست کہا اور سچ کہا، میں اپنى امت کے لیے اس بات پر راضی ہوں، جس بات میں اللہ تعالى اور ابن اُمِّ عبد (عبد اللہ بن مسعود) کى پسند ہو اور میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں، جس کو اللہ تعالى اور ابن ام عبد (عبد اللہ بن مسعود) نا پسند کرے۔ (معجم طبرانى کما فی مجمع الزوائد : 9/ 474)
اگرچہ صحابہ کرام معصوم عن الخطا نہیں ہیں، ان سے اجتہادى خطا ہو سکتى ہے، (جس پر انہیں ایک اجر تو ملا ہے) لیکن اس امکان کے باوجود بھى نبى اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو امت کے لیے "معیار حق" قرار دیا ہے، مذکورہ بالا دلائل اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
نوٹ: دلائل کے خانے میں ان مآخذ و مصادر کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں سے یہ مواد اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے، اگر اس موضوع کو تفصیل سے دیکھنا ہو تو ان کتب اور مقالات کى طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1)حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم معیار حق ہیں، از: مفتى عبد الرحیم لاجپورى رحمہ اللہ
(2)عصمت انبیاء علیہم السلام وحرمت ِ صحابہ رضی اللہ عنہم ، از: محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنور رحمہ اللہ
(3)اجماع امت اور عدالت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، از: مولانا مہر محمد میانوالى
(4)مقام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، از: محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمى رحمہ اللہ
(5)تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عدل ہیں، از: محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمى رحمہ اللہ
(6)کمالات نبوت کے آئینہ دار، از: حکیم الاسلام قارى محمد طیب صاحب رحمہ اللہ
(7)دین الہى کے پاسبان، از: شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلوى رحمہ اللہ
(8)مقام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، از: فقیہ الامت حضرت مفتى محمد شفیع عثمانى رحمہ اللہ
(9)عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کى فقہى تربیت اور اس کے نتائج وثمرات، از: محقق العصر حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتى رحمہ اللہ
(10)صحابہ کرام اور علماء دیوبند کا موقف، از : حضرت مولانا مفتى ابو القاسم نعمانى زید مجدہ
(11)اسلام میں صحابہ رض اللہ عنہم کا مقام متعین ہے ، از : مولانا محمد سلمان بجنورى زید مجدہ
(12)ماہنامہ دار العلوم دیوبند، صفر/ربیع الاول، 1440ہجرى، مطابق : نومبر/ دسمبر 2018ء، شان صحابہ نمبر
واللہ تعالى اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچى