سوال:
اگر کوئی کسی بات پر غصہ میں یہ کہدے کہ "میرا ہرعبادت سے ایمان اٹھ گیا،" کیا اس سے ایمان اور نکاح پر کوئی فرق پڑے گا یا صرف توبہ و استغفار کرنا ہوگی؟
تنقیح: آپ سے وضاحت مطلوب ہے کہ "ہر عبادت سے ایمان اٹھ گیا " سے آپ کی کیا مراد تھی؟
جواب تنقیح:
بیوی کو شوہر اپنی محبت کا یقین دلارہا تھا، اس موقع پر بیوی نے کہا: "میں نے آپ کی محبت دیکھ لی ہے، اب میرا کسی بھی چیز پر ایمان ہی نہی رہا" تو شوہر نے کہا کہ اچھا تو پھر اللہ سے مانگو، تاکہ محبت آجائے تو اس پر بیوی نے کہا "میں نے تو آپ سے محبت بھی عبادت سمجھ کے کی تھی" اس نیت سے بیوی نے یہ جملہ کہا تھا کہ میرا تو ہر عبادت سے ایمان اٹھ گیا ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی بیوی کی مذکورہ جملہ میں "ہر عبادت" سے نیت اور مراد "شوہر کی محبت" تھی اور باقی کسی عبادت کی نیت نہیں تھی تو مذکورہ الفاظ کہنے کی وجہ سے آپ کی بیوی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوئیں، البتہ آئندہ اس جیسے الفاظ کہنے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (224/4، ط: دار الفکر)
والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اه.
الھندیة: (283/2، ط: دار الفکر)
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی