عنوان: بیوہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی میں میراث کی تقسیم(8224-No)

سوال: مفتی صاحب! ہم چار بہن بھائی (دو بھائی اور دو بہن) تھے، جن میں سے ایک بہن کا چار سال پہلے انتقال ہو گیا ہے، مرحوم بہن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بہن کے بعد والد صاحب کا آٹھ ماہ پہلے انتقال ہوگیا ہے، والدہ حیات ہیں۔
میری والدہ چاہتی ہیں کہ اپنی زندگی میں وراثت کا معاملہ طے کردیں، والدہ کے نام دو گھر ہیں، جو کہ والد صاحب کے تھے، دونوں گھروں کی مالیت تقریباً 6 سے 7 کروڑ ہے، ایک گھر میں والدہ اور دونوں بھائی رہتے ہیں، جبکہ دوسرا گھر کرایہ پر دیا ہوا ہے، جس کے کرایہ سے والدہ اپنا خرچہ کرتی ہیں اور یہ نظام والد صاحب کی زندگی سے چل رہا ہے، جبکہ والد صاحب اپنی زندگی میں کرایہ خود وصول کرتے تھے، اور اپنی دوائیوں اور گھر کا خرچہ نکالتے تھے۔
میری والدہ جس گھر میں بھائیوں کے ساتھ رہتی ہیں، اس گھر کو ابھی فروخت کرنا نہیں چاہتی ہیں۔
(1) اب سوال یہ ہے کہ کیا میری والدہ یہ وصیت کر سکتی ہیں کہ میرے مرنے کے بعد تینوں بچوں (دو بیٹے اور ایک بیٹی) کو حصہ ملنے کے بعد میرا آٹھواں حصہ مرحوم بیٹی کے لیے صدقہ جاریہ کردیں؟
(2) میرے والد نے کچھ رقم دی ہوئی تھی، ان کے انتقال کے بعد وہ رقم مل گئی ہے، کیا یہ رقم والد کی طرف سے صدقہ جاریہ کر سکتے ہیں؟
اس رقم کا ہمارے چھوٹے بھائی کو نہیں پتا، دراصل چھوٹے بھائی نے ابو کے انتقال کے بعد ان کے بینک سے رقم نکلواکر خرچ کردی تھی، اب والدہ چاہ رہی ہیں کہ جو رقم والد صاحب کے آرہی ہے، اس کو والد کی طرف سے صدقہ جاریہ کردیا جائے۔
براہ کرم ان دونوں مسئلوں میں شرعی رہنمائی فرمادیں۔
جواب تنقیح بطرف سائل:
دونوں گھر والدہ کے نام تھے، البتہ اس کا قبضہ اور ملکیت والد صاحب کے پاس تھی، کیونکہ والد صاحب ایک میں خود رہتے تھے اور دوسرا کرایہ پر دیا ہوا تھا، جس کا کرایہ خود وصول کرتے تھے، جس سے دوائی اور گھر کا خرچ چلاتے تھے۔

جواب: (1) مرحوم کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل مال متروکہ و جائیداد کو چالیس (40) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو پانچ (5)٬ دونوں بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو چودہ (14) اور بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔

فیصد کے اعتبار سے تقسیم اس طرح ہوگی:
بیوہ کو % 12.5 فیصد
ہر ایک بیٹے کو % 35 فیصد
بیٹی کو. % 17.5 فیصد ملے گا۔
واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق والدہ کے نام دونوں گھر در حقیقت مرحوم والد کی ملکیت اور قبضے میں تھے٬ لہذا یہ بھی اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم ہونگے۔
(2) والد کی طرف سے دییے گئے قرض کی جو رقم وصول ہوئی ہے٬ وہ بھی مرحوم والد کا ترکہ ہے٬ یہ رقم بھی میراث کے شرعی اصولوں کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی۔
البتہ اگر تمام ورثاء عاقل اور بالغ ہوں، اور وہ اپنی دلی رضامندی سے اس رقم کو والد کے صدقہ جاریہ کے طور پر کہیں خرچ کردیں٬ تو اس کی اجازت ہوگی٬ کسی وارث کی دلی رضامندی کے بغیر اس کے حصے کو صدقہ کرنا شرعا درست نہیں ہوگا۔
نیز چھوٹے بیٹے نے اپنے مرحوم والد کے بینک اکاؤنٹ میں سے جو رقم دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر استعمال کی ہے٬ اس کے شرعی حصے میں سے اتنی رقم منہا کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ؕ...وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ؕ....الخ

الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث"

و فیه ایضاً: (448/6، ط: دار الفکر)
"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين"

و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 461 Aug 23, 2021
bewah do bete or aik beti mai meeras ki taqseem

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.