سوال:
مفتی صاحب ! مجھے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے، میرا بیٹا سعودیہ میں رہتا ہے، لیکن وہ پیسے نہیں بھیج رہا ہے، تو کیا شادی میں بچی کے جہیز کے لیے سود پر پیسے لے سکتا ہوں؟
جواب: بچی کے جہیز کے لیے سودی قرضہ لینا شرعاً حرام ہے، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔
اگر سنت کے مطابق بچی کی شادی کی جائے تو بہت کم خرچ میں شادی مکمل ہوجائے گی، اور قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
مشکوۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 3097، ط: المکتب الاسلامی)
وعن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة» . رواهما البيهقي في شعب الإيمان
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1598، ط: دار احیاء التراث العربی)
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی