resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: "میں ٹوٹے ہوئے دلوں میں بستا ہوں" اس حدیث کى تحقیق(8229-No)

سوال: السلام علیکم، میں نے ایک حدیث کے بارے میں پوچھنا تھا، میں نے بدنظری سے متعلق کتاب میں ایک حدیث پڑھی تھی "کہ ٹوٹا ہوا دل اللہ کے قریب ہوتا ہے۔" مہربانی فرماکر بتادیں کہ یہ حدیث کس عربی کتاب کی ہے اور اس کے صحیح اور ضعیف ہونے کا کیا حکم ہے؟ جزاکم اللہ خیرا

جواب: واضح رہے کہ جو شخص اللہ تعالى کى رضا کى خاطر اپنى خواہشات کو قربان کرتا ہے تو اللہ تعالى کاخاص تعلق ایسے شخص کے دل میں پیدا ہو جاتا ہےاور اس کا دل اللہ تعالى کى تجلى گاہ بنتا ہے، ان الفاظ : "ٹوٹا ہوا دل اللہ کے قریب ہوتا ہے"، میں اسى مفہوم کو بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ الفاظ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا ثابت نہیں ہیں، ملا على قارى رحمہ اللہ (م 1014ھ) نے اپنى کتاب "الأسرار المرفوعة" ص 117، ط: مؤسسة الرسالة-بيروت، میں فرمایا ہے: "ان الفاظ کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے"، نیز علامہ مرتضى الزبیدى رحمہ اللہ (م1205ھ) نے "إتحاف السادة المتقين" ج 6 ص 290، ط: مؤسسة التاريخ العربي، بيروت-لبنان، میں اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے: "گویا کہ یہ حدیث اسرائیلى روایات میں سے ہےاور ائمہ حدیث کے نزدیک اس حدیث کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے"، لہذا بعینہ ان الفاظ کو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف منسوب کر کے بطور ِحدیث بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (1)
البتہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت موسى اور حضرت داود علیہما السلام کى طرف نسبت کرکے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں،ذیل میں ان کوبیان کیا جاتا ہے:
(1) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م 241ھ) نے اپنى کتاب "الزھد" ص 64، رقم الحدیث (391)،ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان، میں نقل کیا ہے: عمران القصیر تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسى علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! میں آپ کو کہاں تلاش کروں؟ اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا: مجھے ٹوٹے ہوئے دلوں میں تلاش کرو اور میں ان شکستہ دلوں سے ہر روز ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو ان کے دل شدت غم کى وجہ سے منہدم ہو جائیں۔ (2)
(2) حافظ ابو نعیم اصفہانى رحمہ اللہ (م 430ھ) نے اپنى کتاب "حلیة الأولياء" ج 4 ص 31، ط: دار الكتاب العربي – بيروت، میں نقل کیا ہے: حضرت وہب بن منبہ سے مروى ہے کہ حضرت داود علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے اللہ! اگر میں آپ کو تلاش کروں، تو آپ مجھے کہاں ملیں گے؟ اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا: (میں) ان لوگوں کے پاس ملوں گا، جن کے دل میرے خوف سے شکستہ ہوں۔ (3)
نیز نبى اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کا مضمون صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کى حدیث ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالى فرمائیں گے: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ شخص کہے گا کہ اے میرے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا، حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پالیتے۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ شخص کہے گا: اے میرے رب ! میں آپ کو کھانا کیسے کھلاتا، حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالى فرمائیں گے: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا، تم اگر اسکو کھانا کھلاتے تو تم اسے میرے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں نے تم سے پانی مانگا تھا، تم نے مجھے پانی نہیں پلایا، وہ شخص کہے گا: اے میرے رب! میں آپ کو کیسے پانی پلاتا، حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میرے فلاں بندہ نے تم سے پانی مانگا تھا، اگر تم اس کو پلاتے تو تم اسے میرے پاس پاتے۔
(صحیح مسلم:حدیث نمبر: 2569) (4)
تشريح:
ملا على قارى رحمہ اللہ نے مشکاۃ المصابیح کى شرح "مرقاۃ المفاتیح" میں مندرجہ بالا حدیث کى تشریح کے ضمن میں فرمایا ہے کہ اس حدیث میں اس بات کى طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالى کے ہاں عاجزى اور انکسارى کا بڑا مقام ہے، جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ (اللہ تعالى فرماتے ہیں) جو لوگ میرى وجہ سے شکستہ دل ہوں، تو میں ان کے قریب ہوتا ہوں۔
علامہ طیبى رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کى طرف اشارہ ہے کہ مریض کى عیادت کا ثواب کسى بھوکے کو کھانا کھلانے اور کسى پیاسے کو پانى پلانے سے زیادہ ہے، کیونکہ مریض کى عیادت کے بارے میں فرمایا ہے: تم مجھے اس کے پاس پالیتے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالى شکستہ دل مسکین کے قریب ہوتے ہیں۔ (5)
خلاصہ کلام:
"میں ٹوٹے ہوئے دلوں میں بستا ہوں" ان الفاظ کو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے، البتہ مذکورہ بالا تشریح کے مطابق ان الفاظ کو بیان کرنے کى گنجائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) الأسرار المرفوعة :(ص: 117، رقم الحديث (70)، ط: مؤسسة الرسالة-بيروت)
"أنا عند المنكسرة قلوبهم من أجلي ". قال السخاوي :ذكره الغزالي في البداية ،انتهى .ولا يخفى أن الكلام في هذا المقام لم يبلغ إلى غاية .قلت :وتمامه: "أنا عند المندرسة قبورهم لأجلي "،ولا أصل لهما في المرفوع .
اتحاف السادة المتقين :(6/ 290،ط: مؤسسة التاريخ العربي، بيروت-لبنان)
"وقد ذكر المصنف فى بداية الهداية :أنه فى الخبر:" أنا عند المنكسرة قلوبهم من أجلى "قلت :وكأنه ... من الإسرائيليات ،ولم يثبت رفعه عند أئمة الحديث".

(2) الزهد لأحمد بن حنبل: (زھد موسى علیه السلام، ص 64، رقم الحدیث (391)،ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)
عن عمران القصير قال: " قال موسى بن عمران: أي رب، أين أبغيك؟ قال: ابغني عند المنكسرة قلوبهم؛ إني أدنو منهم كل يوم باعا، ولولا ذلك لانهدموا.

(3) حلية الأولياء وطبقات الأصفياء: (4/ 31، ط: دار الكتاب العربي – بيروت)
عن وهب بن منبه، قال: قال داود عليه السلام: " إلهي أين أجدك إذا طلبتك؟ قال: عند المنكسرة قلوبهم من مخافتی.

(4) صحيح مسلم :(كتاب البر والصلة والآداب/ باب فضل عيادة المريض، 4/ 1990، رقم الحدیث (2569)، ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل يقول يوم القيامة: يا ابن آدم مرضت فلم تعدني، قال: يا رب كيف أعودك؟ وأنت رب العالمين، قال: أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعده، أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده؟ يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني، قال: يا رب وكيف أطعمك؟ وأنت رب العالمين، قال: أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان، فلم تطعمه؟ أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي، يا ابن آدم استسقيتك، فلم تسقني، قال: يا رب كيف أسقيك؟ وأنت رب العالمين، قال: استسقاك عبدي فلان فلم تسقه، أما إنك لو سقيته وجدت ذلك عندي ".

(5) مرقاة المفاتيح: (3/ 1123، ط: دار الفکر)
"وفيه إشارة إلى أن للعجز والانكسار عنده تعالى مقدارا واعتبارا، كما روي: أنا عند المنكسرة قلوبهم لأجلي. قال الطيبي: وفي العبارة إشارة إلى أن العيادة أكثر ثوابا من الإطعام والإسقاء الآتيين، حيث خص الأول بقوله: وجدتني عنده؟ فإن فيه إيماء إلى أن الله تعالى أقرب إلى المنكسر المسكين اه".
شرح المشكاة للطيبي: (4/ 1334، ط: مكتبة نزار مصطفى، الریاض)
"وخص الأول بقوله: ((وجدتني عنده))، لأن العجز والانكسار ألصق وألزم هناك. والله تعالي أقرب إلي المنكسر المسكين".

واللہ تعالى اعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچى

mai totay hoye dilo mai basta hon is hadees ki tehqeeq

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees