سوال:
اس حدیث کی تصدیق فرمادیں: "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت چھپا کر رکھنی کی چیز ہے، بلاشبہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے غیر مردوں کی نظروں میں مزین کر کے دکھاتا ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ عورت اللہ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے، جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: رقم الحدیث:10115)
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت "صحیح" ہے،، لہذا اس حدیث کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس روایت کا ترجمہ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے۔
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:"عورت ستر(پردہ) ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو گھورتا ہے اور یہ اس وقت اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے ،جب وہ گھر کے اندر ہوتی ہے۔(المعجم الکبیرللطبرانی،حدیث نمبر:۱۰۱۱۵،ط: مكتبة ابن تيمية)(۱)
تخریج الحدیث:
۱۔امام طبرانی (م 360ھ)نے ’’المعجم الکبیر‘‘(10/108)،رقم الحدیث: ۱۰۱۱۵،ط: مكتبة ابن تيمية) اور’’ المعجم الأوسط ‘‘(6/86)رقم الحدیث :۸۰۹۶،ط: دار الکتب العلمیۃ) میں ذکرکیا۔
۲۔امام بزار (م292 ھ) نے’’ مسند بزار‘‘ (5/742) رقم الحدیث :۲۰۶۱، ط: مكتبة العلوم والحكم) میں ذکرکیا۔
۲۔امام ابن ابی شیبہ (م235 ھ) نے ’’مصنف‘‘(2/157) رقم الحدیث :۷۶۱۶،ط:مکتبۃ الرشد) میں ذکرکیا۔
۳۔ امام ترمذی (م 279 ھ) نے’’سنن الترمذی ‘‘(3/468)رقم الحدیث :۱۱۷۳ ،ط: شركة مصطفى البابی الحلبی) میں ذکرکیا۔
۴۔ حافظ ابن خزیمہ (م 311 ھ) نے’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ (3/93) رقم الحدیث :۱۶۸۵،۱۶۸۶ط:المکتب الاسلامی) میں ذکرکیا۔
۵۔ علامہ ابن حبان (م 354ھ ) نے’’صحیح ابن حبان‘‘(12/413)،رقم الحدیث :۵۵۹۸،۵۵۹۹، ط:مؤسسۃ الرسالۃ) میں ذکرکیا۔
اس روايت كی اسنادی حیثیت:
امام ترمذی (م 279 ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: حسن صحیح غریب
حافظ ابن خزیمہ (م 311 ھ) اور علامہ ابن حبان (م 354ھ ) نے اس حدیث کو "صحیح" کہا ہے، امام دارقطنی(م 385ھ)فرماتے ہیں کہ قتادہ سے مرفوعاًمروی روایت کو "صحیح" ہے۔
علامہ ہیثمی (م807ھ) نے کہا ہے کہ اسے امام طبرانی نےالمعجم الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔(۲)
تشریح:
۱۔جناب رسول اللہ ﷺ نے عورت کو سراپا ستر قراردیا، جس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ستر (شرمگاہ) کو چھپایا جاتا ہے، اسی طرح عورت بھی ایک ایسی چیز ہے، جس کو بیگانے مرد کی نظروں سے چھپ کر پردہ میں رہنا چاہیے اور جس طرح سب کے سامنے ستر کو کھولنا ایک برا فعل سمجھا جاتا ہے، اسی طرح عورت کا بھی لوگوں کے سامنے آنا برا ہے۔(۳)
۲۔حدیث شریف میں "استشرفھاا لشیطان" کے الفاظ ہیں ،"استشراف" کے معنی ہیں "ہاتھ کا چھجا بنا کر نظر لمبی کرکے کسی چیز کو دیکھنا، کسی کو گھورنا" جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو غیر مردوں کی نظروں میں مزین اور خوبصورت کرکے دکھاتا ہے یا مطلب یہ ہے کہ شیطان اس کو گھورتا ہے، تاکہ اس عورت کو فتنے میں مبتلا کرے اور اس کے ذریعے مردوں کو بھی فتنے میں مبتلا کرے۔
۳۔شیطان سے مراد شیاطین الانس والجن دونوں ہیں، بلکہ اصل گھورنے والے تو شیاطین الانس ہیں، یعنی جب عورت گھر سے بلاضرورت اور مجبوری کے نکلتی ہے، تو فاسق اور بدکار لوگ اس کو گھور گھور کر دیکھتے ہیں، اور یہ موقع چونکہ عورت فراہم کرتی ہے، اس لیے عورت کو گھر کی چاردیواری میں رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔(۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)’’المعجم الکبیر‘‘(10/108)،رقم الحدیث: ۱۰۱۱۵،ط: مكتبة ابن تيمية)
عن قتادة، عن مورق العجلي، عن أبي الأحوص، عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المرأة عورة، وإنها إذا خرجت استشرفها الشيطان، وإنها أقرب ما يكون إلى الله وهي في قعر بيتها۔
و الحديث أخرجه الطبراني في ’’المعجم الأوسط‘‘‘‘(6/86)،(۸۰۹۶) و البزار في ’’مسنده‘‘‘‘ (5/742) ،( ۲۰۶۱) و ابن أبي شيبة في ’’مصنفه‘‘(2/157) ،(۷۶۱۶) و الترمذي في ’’سننه ‘‘(3/468)،(1173)، و ابن خزيمة في و ابن حبان في ’’صحيحه‘‘ (12/413)،( :۵۵۹۸،۵۵۹۹)
(۲) سنن الترمذی :(3/468)رقم الحدیث :۱۱۷۳ ،ط: شركة مصطفى البابي الحلبي)
هذا الحديث أخرجه الإمام الترمذي مختصراً وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب۔
وأخرجه الحافظ ابن خزيمة في ’’صحيحه‘‘ وقال: فإني لا أعرف السائب مولى أم سلمة بعدالة ولا جرح ولا أقف على سماع حبيب بن أبي ثابت هذا الخبر من ابن عمر ولا هل سمع قتادة خبره من مورق عن أبي الأحوص أم لا بل كأني لا أشك أن قتادة لم يسمع من أبي الأحوص لأنه أدخل في بعض أخبار أبي الأحوص بينه وبين أبي الأحوص مورقا وهذا الخبر نفسه أدخل همام وسعيد بن بشير بينهما مورقا
و أورده الإمام الدارقطني في ’’العلل الواردة ‘‘(5/324، ط: دار طيبة) قال: والموقوف هو الصحيح من حديث أبي إسحاق وحميد بن هلال ورفعه صحيح من حديث قتادة۔ و الحديث أورده الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘(2/ 35)( 2116)وقال: رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون.
(۳) تحفة الأحوذی: (283/4، ط: دار الکتب العلمیة)
قوله (المرأة عورة) قال في مجمع البحار جعل المرأة نفسها عورة لأنها إذا ظهرت يستحى منها كما يستحى من العورة إذا ظهرت والعورة السوأة وكل ما يستحى منه إذا ظهر
(۴)مرقاۃ المفاتیح: (2054/5، ط: دار الفکر)
المرأة عورة فإذا خرجت) أي من خدرها (استشرفها الشيطان) أي زينها في نظر الرجال وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها والأصل في الاستشراف رفع البصر للنظر إلى الشيء وبسط الكف فوق الحاجب والعورة السوأة وكل ما يستحى منه إذا ظهر، وقيل أنها ذات عورة والمعنى أن المرأة غيرها بها فيوقعها أو أحدهما في الفتنة أو يريد بالشيطان شيطان الإنس من أهل الفسق أي إذا رأوها بارزة استشرفوها بما بثه الشيطان في نفوسهم من الشر ومحتمل أنه رآها الشيطان فصارت من الخبيثات بعد أن كانت من الطيبات. (رواه الترمذي).
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی