عنوان: ماہواری ختم ہونے کے پانچ یا دس دن بعد آنے والے خون کا حکم(8259-No)

سوال: میری عبادات بہت متاثر ہورہی ہیں، کیونکہ پہلے ماہواری وقت پر ہوتی تھی، شادی کے بعد بچے کی پیدائش کے بعد کوئییل رکھوالی جس کی وجہ سے روٹین بہت ڈسٹرب ہوگئی ہے، اپنی تاریخ کے علاوہ پانچ دن بعد ایک آدھ داغ لگ جاتا ہے پھر دو گھنٹے بعد صاف ہوجاتی ہے، تاریخ ہر ماہ کی17 ہے، پھر دس دن پورا ہونے پر غسل کرنے کے بعد 10 یا 5 دن بعد دوبارہ سے داغ لگنا شروع ہو جاتے ہیں، ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟ تاریخ کے علاوہ جو داغ لگتے ہیں، اس کے بعد نہانا ہوگا یا صرف وضو کرکے نماز پڑھنی ہے؟

جواب: صورت مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ماہ کی 17 تاریخ سے آپ کے ایام حیض شروع ہوتے ہیں اور دس دن تک رہتے ہیں اور ہر مہینے ایسا ہی ہوتا ہے، اس کے بعد پانچ یا دس دن بعد خون کے دھبے نظر آتے ہیں، لہذا اگر صورت حال یہی ہے، جیسا کہ ہم نے سمجھا ہے تو ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ دس دن ایام ِحیض گزرنے کے بعد غسل کر کے پاکی حاصل کرلیں اور اپنے معمولات نماز وغیرہ شروع کر دیں، کیونکہ دس دن کے بعد آنے والا خون استحاضہ کا خون شمار ہوگا۔
پھر استحاضہ کا خون آنے کے دوران اگر نماز کے لیے اتنا وقت ملتا ہو کہ پاک صاف ہو کر وقتی فرض نماز ادا کی جا سکتی ہو تو ایسی صورت میں پاکی کا مکمل اہتمام کر کے نماز ادا کرنا ہوگی، لیکن اگر استحاضہ کا خون مسلسل آرہا ہو اور اتنا وقت بھی نہ مل رہا ہو کہ پاک صاف ہو کر وقتی فرض نماز ادا کی جا سکے تو ایسی صورت میں آپ شرعی معذور کے حکم میں ہوں گیں اور شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے پر نیا وضو کرنا ہوگا اور اس وضو کے ساتھ اگلی نماز کے وقت تک جتنے چاہیں فرائض و نوافل پڑھ سکتی ہیں، نیز روزے بھی رکھ سکتی ہیں اور قرآنِ کریم کی تلاوت بھی کرسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتح القدير شرح الھدایة: (باب الحيض و الاستحاضة، 176/1- 178، ط: دار الفكر)
"(وَدَمُ الِاسْتِحَاضَةِ) كَالرُّعَافِ الدَّائِمِ لَا يَمْنَعُ الصَّوْمَ وَلَا الصَّلَاةَ وَلَا الْوَطْءَ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ : «تَوَضَّئِي وَصَلِّي وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ» وَإِذَا عُرِفَ حُكْمُ الصَّلَاةِ ثَبَتَ حُكْمُ الصَّوْمِ وَالْوَطْءُ بِنَتِيجَةِ الْإِجْمَاعِ (وَلَوْ) (زَادَ الدَّمُ عَلَى عَشَرَةِ أَيَّامٍ) وَلَهَا عَادَةٌ مَعْرُوفَةٌ دُونَهَا رَدَّتْ إلَى أَيَّامِ عَادَتِهَا، وَاَلَّذِي زَادَ اسْتِحَاضَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «الْمُسْتَحَاضَةُ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا» وَلِأَنَّ الزَّائِدَ عَلَى الْعَادَةِ يُجَانِسُ مَا زَادَ عَلَى الْعَشَرَةِ فَيُلْحَقُ بِهِ، وَإِنْ ابْتَدَأَتْ مَعَ الْبُلُوغِ مُسْتَحَاضَةً فَحَيْضُهَا عَشَرَةُ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَالْبَاقِي اسْتِحَاضَةٌ لِأَنَّا عَرَفْنَاهُ حَيْضًا فَلَا يَخْرُجُ عَنْهُ بِالشَّكِّ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ"
"(قَوْلُهُ: وَلَوْ زَادَ الدَّمُ عَلَى عَشَرَةِ أَيَّامٍ وَلَهَا عَادَةٌ مَعْرُوفَةٌ دُونَهَا رَدَّتْ إلَى أَيَّامِ عَادَتِهَا) فَيَكُونُ الزَّائِدُ عَلَى الْعَادَةِ اسْتِحَاضَةً وَإِنْ كَانَ دَاخِلَ الْعَشَرَةِ، وَهَلْ تَتْرُكُ بِمُجَرَّدِ رُؤْيَتِهَا الزِّيَادَةَ؟ اُخْتُلِفَ فِيهِ، قِيلَ: لَا إذَا لَمْ يُتَيَقَّنْ بِكَوْنِهِ حَيْضًا لِاحْتِمَالِ الزِّيَادَةِ عَلَى الْعَشَرَةِ، وَقِيلَ: نَعَمْ اسْتِصْحَابًا لِلْحَالِ وَلِأَنَّ الْأَصْلَ الصِّحَّةُ وَكَوْنُهُ اسْتِحَاضَةً بِكَوْنِهِ عَنْ دَاءٍ وَهُوَ الْأَصَحُّ، وَإِنْ لَمْ يَتَجَاوَزْ الزَّائِدُ الْعَشَرَةَ فَالْكُلُّ حَيْضٌ بِالِاتِّفَاقِ، وَإِنَّمَا الْخِلَافُ فِي أَنَّهُ يَصِيرُ عَادَةً لَهَا أَوَّلًا إلَّا إنْ رَأَتْ فِي الثَّانِي كَذَلِكَ، وَهَذَا بِنَاءً عَلَى نَقْلِ الْعَادَةِ بِمَرَّةٍ أَوْ لَا فَعِنْدَهُمَا لَا وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ نَعَمْ.وَفِي الْخُلَاصَةِ، وَالْكَافِي أَنَّ الْفَتْوَى عَلَى قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ".

الھندیة: (39/1، ط: دار الفکر)
النصاب أقل الحيض ثلاثة أيام وثلاث ليال في ظاهر الرواية. هكذا في التبيين وأكثره عشرة أيام ولياليها...لو رأت الدم بعد أكثر الحيض والنفاس في أقل مدة الطهر فما رأت بعد الأكثر إن كانت مبتدأة وبعد العادة إن كانت معتادة استحاضة وكذا ما نقص عن أقل الحيض وكذا ما رأته الكبيرة جدا والصغيرة جدا. هكذا في المحيط...فإن رأت بين طهرين تامين دما لا على عادتها بالزيادة أو النقصان أو بالتقدم والتأخر أو بهما معا انتقلت العادة إلى أيام دمها حقيقيا كان الدم أو حكميا هذا إذا لم يجاوز العشرة فإن جاوزها فمعروفتها حيض وما رأت على غيرها استحاضة فلا تنتقل العادة هكذا في محيط السرخسي.

الدر المختار مع رد المحتار: (باب الحیض، 298/1، ط: دار الفکر)
"ودم الاستحاضة حکمه کرعاف دائم وقتًا کاملاً لایمنع صومًا وصلاةً ولو نفلاً وجماعَا؛ لحدیث: توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر".
’’(قَوْلُهُ: لَا يَمْنَعُ صَوْمًا إلَخْ) أَيْ وَلَا قِرَاءَةً وَمَسَّ مُصْحَفٍ وَدُخُولَ مَسْجِدٍ، وَكَذَا لَا تُمْنَعُ عَنْ الطَّوَافِ إذَا أَمِنَتْ مِنْ اللَّوْثِ، قُهُسْتَانِيٌّ عَنْ الْخِزَانَةِ ط‘‘.

الهدایة: (باب الحیض، 34/1، دار احیاء التراث العربی)
"والمستحاضة ومن به سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لایرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاة فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض والنوافل".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1498 Aug 27, 2021
maahwaari khatam honay kay baanch ya das din baad jo khoon aaye uska hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Purity & Impurity

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.