سوال:
میرے دوست کی بہن تقریبا دس سال سے اپنے بھائی کے پاس رہتی ہیں، ان کے تین بچے ہیں، میرا دوست ان کو اپنے پاس اس لیے لایا ہے کہ ان کا بہنوئی ایک مہینے کے بعد دو تین سال غائب ہوجاتا ہے، آخری دفعہ پانچ سال بعد آیا ہے، اب وہ اپنے بچوں کی ڈیمانڈ کر رہا ہے۔
ایسی صورت میں میرے دوست نے کو ان بچوں پر خرچ کیا ہے، وہ اس کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ کے مذکورہ دوست نے اپنے بھانجوں اور بھانجی پر جو کچھ خرچ کیا ہے، اگر وہ خرچ کرنا قاضی کے حکم یا بہنوئی کی رضا سے تھا، تو اس صورت میں آپ کا دوست اپنے بہنوئی سے کیے گئے خرچ کا مطالبہ کر سکتا ہے، اور اگر اس نے قاضی کے حکم یا بہنوئی کی رضا کے بغیر خرچہ کیا ہے، تو اس صورت میں کیا گیا خرچہ تبرع (احسان) سمجھا جائے گا، اور آپ کے دوست کو اپنے بہنوئی سے خرچہ وصول کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (594/3، ط: دار الفکر)
مطلب لا تصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا:
قوله ( والنفقة لا تصير دينا الخ ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة۔
البحر الرائق: (باب النفقۃ، 316/4، ط: رشیدیہ)
(قوله ولا تجب نفقة مضت إلا بالقضاء أو الرضا) ؛ لأن النفقة صلة وليست بعوض عندنا فلم يستحكم الوجوب فيها إلا بالقضاء كالهبة لا توجب الملك فيها إلا بمؤكد وهو القبض والصلح بمنزلة القضاء؛ لأن ولايته على نفسه أقوى من ولاية القاضي بخلاف المهر؛ لأنه عوض البضع والمراد بعدم وجوبها عدم كونها دينا عليه فلا تكون دينا عليه يطالب به ويحبس عليه إلا بإحدى هذين الشيئين فحينئذ تصير دينا عليه فتأخذه منه جبرا سواء كان غائبا أو حاضرا سواء أكلت من مال نفسها أو استدانت وأطلق المصنف فشمل المدة القليلة لكن ذكر في الغاية أن نفقة ما دون الشهر لا تسقط وعزاه إلى الذخيرة فكأنه جعل القليل مما لا يمكن التحرز عنه إذ لو سقطت بمضي اليسير من المدة لما تمكنت من الأخذ أصلا اه.
والمراد بالرضا اصطلاحهما على قدر معين للنفقة إما أصنافا أو دراهم؛ ولذا عبر الحدادي بالفرض والتقدير فإذا فرض لها الزوج شيئا معينا كل يوم، ثم مضت مدة فإنها لا تسقط فهذا هو المراد بقولهم أو الرضا، وأما ما توهمه بعض حنفية العصر من أن المراد بالرضا أنه إذا مضت مدة بغير فرض ولا رضا، ثم رضي الزوج بشيء فإنه يلزمه فخطأ ظاهر لا يفهمه من له أدنى تأمل.
کفایت المفتی: (92/9، ط: ادارۃ الفاروق)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی