عنوان: فوت شدہ نمازوں کی قضا کا شرعی حکم اور اس کا قرآن و احادیث سے ثبوت(8272-No)

سوال: مفتی صاحب ! کیا قضاء نمازیں ادا کرنے کی قرآن میں کہیں کوئی تاکید ہے اور اس کے متعلق احادیث میں کوئی بات کہی گئی ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔

جواب: جس مسلمان نے اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے  نمازیں نہ پڑھی ہوں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر نادم ہوکر توبہ کرے اور ان فوت شدہ نمازوں کی قضا کرے۔
اگر اسے ان فوت شدہ نمازوں کی تعداد یاد نہ ہو تو اسے چاہیے کہ خوب اچھی طرح سوچ کر ایک محتاط حساب کے مطابق اندازہ لگا کر اپنی فوت شدہ نمازیں ادا کرنا شروع کریں، یہاں تک کہ اس کو یقین ہوجائے کہ اب میرے ذمہ کوئی قضاء نماز باقی نہیں ہے، مثلاً ایک شخص چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہوا، اور اس نے پانچ چھ سال تک نماز نہیں پڑھی، یا کبھی پڑھی اور کبھی نہیں پڑھی اور یہ مدت اس شخص کے غالب گمان میں مثلاً پانچ سال کی ہوئی ، تو اس شخص کو اپنے غالب گمان کے مطابق اتنے ہی سالوں کی نماز قضا کرنا ضروری ہوگا۔
آسانی کی غرض سے علماء کرام نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ ہر وقتی فرض نماز کے ساتھ ایک قضا نماز بھی ادا کرلی جائے، تاکہ قضا نمازوں کی ادائیگی بھی آہستہ آہستہ ہوتی رہے، البتہ یہ طریقہ لازمی اور ضروری نہیں ہے، بلکہ جس قدر جلدی ادا کرسکے ادا کرلے، چنانچہ ایک وقت میں متعدد قضا نمازیں پڑھنا بھی درست ہے۔
قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمان کو اپنے تمام فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنی چاہیے۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے کہ :
"جو شخص کوئی نماز پڑھنا بھول جائے، تو اس پر لازم ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے، وہ نماز پڑھے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں، اللہ کا ارشاد ہے : میری یاد آنے پر نماز قائم کرو"۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:597)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ: جب تم میں سے کوئی شخص نماز سے سوجائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے، تو جب بھی اسے یاد آئے وہ نماز پڑھے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "اقم الصلوۃ لذکری" ( میری یاد آنے پر نماز قائم کرو)۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:684)
ان احادیث مبارکہ میں واضح طور پر یہ اصول بیان کردیا گیا ہے کہ جس شخص کی نماز غفلت یا سونے وغیرہ کی وجہ سے چھوٹ جائے تو تنبہ ہونے پر اس کی قضا کرے۔
نیز ان احادیث مبارکہ میں آخر میں قرآن مجید کی آیت ذکر کرکے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ یہ آیت غفلت کی وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضا کو بھی شامل ہے کہ یاد آنے پر ان نمازوں کی قضا کیجائے گی، محض توبہ واستغفار کافی نہیں ہے۔
اسی طرح جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے عمل سے بھی اس بات کی تعلیم دی ہے کہ نماز قضا ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی ضروری ہے، محض توبہ واستغفار اور ندامت کافی نہیں ہے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں یہ واقعہ تفصیل سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فوت شدہ تمام نمازوں کی قضا فرمائی۔
اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں ایک دوسرا واقعہ بھی مذکور ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً فوت شدہ نماز قضا کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہٴ کرام کے ساتھ غزوہٴ خیبر سے واپس آرہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگہبانی کے لیے متعین فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور آپ بھی سو گئے اور باقی سب حضرات بھی ایسے سوئیں کہ طلوعِ آفتاب تک نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بیدار ہوئے اور گھبرا کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابہٴ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابہٴ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہیے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:680)
قضا نمازوں کی ادائیگی سے متعلق یہ موقف صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ہی نہیں؛ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے، بلکہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقف کو جمہور علمائے کرام کا موقف قرار دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر، رقم الحديث: 597، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا أبو نعيم، وموسى بن إسماعيل، قالا: حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم [ص:123] قال: " من نسي صلاة فليصل إذا ذكرها، لا كفارة لها إلا ذلك {وأقم الصلاة لذكري} [طه: 14] "، قال موسى: قال همام: سمعته يقول: بعد: «وأقم الصلاة للذكرى»، قال أبو عبد الله: وقال حبان: حدثنا همام، حدثنا قتادة، حدثنا أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.

و فیہ ایضاً:(باب قضاء الصلاة الأولى فالأولى، رقم الحدیث: 598، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى القطان، أخبرنا هشام، قال: حدثنا يحيى هو ابن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، قال: " جعل عمر يوم الخندق يسب كفارهم، وقال: ما كدت أصلي العصر حتى غربت، قال: فنزلنا بطحان، فصلى بعد ما غربت الشمس، ثم صلى المغرب ".

صحیح مسلم: (باب قضاء الصلاة الفائتة، رقم الحدیث: 685، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وحدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثني أبي، حدثنا المثنى، عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رقد أحدكم عن الصلاة، أو غفل عنها، فليصلها إذا ذكرها»، فإن الله يقول: {أقم الصلاة لذكري} [طه: 14].

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 680، ط: دار الکتب العلمیۃ)
حدثني حرملة بن يحيى التجيبي، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر، سار ليله حتى إذا أدركه الكرى عرس، وقال لبلال: «اكلأ لنا الليل»، فصلى بلال ما قدر له، ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه، فلما تقارب الفجر استند بلال إلى راحلته مواجه الفجر، فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا بلال، ولا أحد من أصحابه حتى ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «أي بلال» فقال بلال: أخذ بنفسي الذي أخذ - بأبي أنت وأمي يا رسول الله - بنفسك، قال: «اقتادوا»، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأمر بلالا فأقام الصلاة، فصلى بهم الصبح، فلما قضى الصلاة قال: «من نسي الصلاة فليصلها إذا ذكرها»، فإن الله قال: {أقم الصلاة لذكري} [طه: 14]

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 157، ط: دار الکتب العلمیۃ)
من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء

حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق: (468/1، ط: سعید)
وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقضي حتى يستيقن

الھندیة: (125/1، ط: دار الفکر)
وفي الحجة الاشتغال بالفوائت أولى وأهم من النوافل إلا السنن المعروفة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلوات التي رويت في الأخبار فيها سور معدودة وأذكار معهودة فتلك بنية النفل وغيرها بنية القضاء، كذا في المضمرات.

مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: (259/23، ط: مجمع الملک فھد)
ومن عليه فائتة فعليه أن يبادر إلى قضائها على الفور سواء فاتته عمدا أو سهوا عند جمهور العلماء. كمالك وأحمد وأبي حنيفة وغيرهم. وكذلك الراجح في مذهب الشافعي أنها إذا فاتت عمدا كان قضاؤها واجبا على الفور.

فتاوی عثمانی: (478,486/1، ط: مکتبۃ معارف القرآن)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1970 Aug 30, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.