عنوان: انبیاء علیہم السلام کی طرف "ذنب" یعنی خطا کی نسبت کرنا(8297-No)

سوال: لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ یہ سورہ فتح کی آیت ہے، اس آیت کا حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اردو ترجمہ یوں کیا ہے "تاکہ اللہ تعالٰی آپ کی تمام اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے" معلوم یہ کرنا ہے کہ اس آیت میں آپ ﷺ کی طرف کون سی خطاؤوں کی نسبت کی گئی ہے؟

جواب: ۱) اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، ان سے کسی قسم کا گناہ سرزد نہیں ہوا ہے اور جہاں کہیں قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کی طرف "ذنب" یا "عصیان" کے الفاظ کی نسبت کی گئی ہے، اس سے مراد ایسے کام ہیں جو حضرات انبیاء علیہم السلام کے بلند مقام کے اعتبار سے ناپسندیدہ تھے، اگرچہ اپنی ذات کے اعتبار سے وہ کام بھی جائز ہوتا ہے، لیکن اس کے مدمقابل کام اولیٰ و افضل ہوتا ہے، دونوں میں فرق "افضل" اور "غیر افضل" کا ہوتا ہے۔
اس کی ایک واضح مثال نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن مکتومؓ کا واقعہ ہے جو جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں دین کے احکام سیکھنے کے لیے تشریف لائے تو اس وقت جناب رسول اللہ ﷺ سرداران ِ کفار قریش کو دعوت ِ اسلام دے رہے تھے، عبداللہ بن ام مکتوم ؓچونکہ نابینا تھے، انہیں پتہ نہیں چلا کہ آپ ﷺ اس وقت اہم کام میں مصروف ہیں ، وہ بار بار کچھ سکھانے کی درخواست کر رہے تھے، جناب رسول اللہ ﷺ کو ان کا یہ فعل ناگوار گزرا اور آپ ﷺ کے ماتھے پر بل آئے ، اس پر اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو متنبہ فرمایاتودیکھیے کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ کو دین سکھانا بھی اچھا کام تھا اور آپ ﷺ کاسرداران ِ کفار قریش کودعوتِ اسلام دینا بھی ایک اچھا کام تھا، لیکن عبداللہ بن ام مکتومؓ جو پہلے سے صاحب ِایمان تھے، ان کا نصیحت حاصل کرنا یقینی تھا، لہذا ان کو دین کا نیا حکم سکھلانا زیادہ بہتر تھا، اسی لیے اس پر اللہ تعالی نے تنبیہ فرمائی۔
یہی وجہ ہے کہ جب نبی (علیہ السلام) "غیرافضل" پر عمل کرلیتا ہے جو کہ فی نفسہ جائز ہوتا ہے، لیکن نبوت کے بلند مقام کے اعتبار سے اس طرزِ عمل کو بطور تنبیہ"ذنب" یا "عصیان" کہہ دیا جاتا ہے، جو درحقیقت نہ صغیرہ گناہ ہوتا ہے اور نہ کبیرہ، بلکہ محض لغزش ہوتی ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے صادر ہوتی ہے اور یہ عوام کے اعتبار سے قابلِ تنبیہ عمل نہیں ہوتا ہے، بلکہ نیکی ہوتی ہے، لیکن"حسنات الابرار سیأت المقربین" (نیکوکاروں کی نیکیاں مقربین کے گناہوں کے برابر ہیں)کے قاعدے کے مطابق اس کو "ذنب" یا "عصیان" کہہ دیا جاتا ہے۔
۲) سوال میں ذکرکردہ آیت میں "ما تقدم" سے مراد وہ لغزشیں (شانِ نبوت کے خلاف امور) ہیں، جو نبوت سے پہلے ہوئیں اور "ماتاخر" سے مراد وہ لغزشیں (شانِ نبوت کے خلاف امور) ہیں جو اعلانِ نبوت کے بعد صادر ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تفسیر الخازن: (153/4، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ومعنى الآية: ليغفر لك الله جميع ما فرط منك ما تقدم من ذنبك يعني قبل النبوة وما تأخر، يعني بعدها وهذا على قول ما يجوز الصغائر على الأنبياء۔۔۔ وتأول لأن النبي صلّى الله عليه وسلّم لم يكن له ذنب كذنوب غيره فالمراد بذكر الذنب هنا ما عسى أن يكون وقع منه من سهو ونحو ذلك لأن حسنات الأبرار سيئات المقربين فسماه ذنبا فما كان من هذا القبيل وغيره فهو مغفور له فأعلمه الله عز وجل بذلك وإنه مغفور له ليتم نعمته عليه

الفقہ الاکبر: (ص: 37، ط: مکتبۃ الفرقان)
والأنبياء عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام كلهم منزهون عَن الصَّغَائِر والكبائر وَالْكفْر والقبائح وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطايا

الشفاء: (ص: 635، ط: حکومۃ دبی)
واعلم أن الامة مجتمعة على عصمةالنبي من الشيطان وكفايته
منه، لا في جسمه بأنواع الأذى، ولا على خاطره بالوساوس.

روح البیان: (8/9، ط: دار الفکر)
قال اهل الكلام ان الأنبياء معصومون من الكفر قبل الوحى وبعده بإجماع العلماء ومن سائر الكبائر عمدا بعد الوحى واما سهوا فجوزه الأكثرون واما الصغائر فتجوز عمدا عند الجمهور وسهوا بالاتفاق

معالم العرفان: (98/17، ط: مکتبۃ معارف القرآن)

معارف القرآن: (66/8، ط: مکتبۃ معارف القرآن)

خیر الفتاوی: (172/1، ط: مکتبۃ امدادیۃ)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 889 Sep 05, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.