سوال:
اکثر سنا گیا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، اس جملے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ہر انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالی نے اس کی ہر چیز مقررفرمائی ہے، انسان اس کے خلاف ہزارہا کوششیں کرلے، تب بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، یہ ہم سب کا بحیثیت مسلمان ایمان اور عقیدہ ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:قل لن یصینا الاماکتب اللہ لنا ھو مولٰنا و علی اللہ فلیتوکل المؤمنون (سورۃ التوبۃ: آیت نمبر:51) ترجمہ: کہہ دو کہ: اللہ نے ہمارے مقدر میں جو تکلیف لکھ دی ہے، ہمیں اس کے سوا کوئی اور تکلیف ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ ہمارا رکھوالا ہے، اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:وما تشاءون الا أن یشاء اللہ(سورۃ الدھر: آیت نمبر:30) ترجمہ: اور تم چاہو گے نہیں جب تک اللہ نہ چاہے۔
حدیث شریف میں ہے: سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا: (اور آپ ﷺ صادق اور مصدوق ہیں) تمہاری پیدائش کے مراحل میں نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک مجتمع رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن جما ہوا خون (لوتھڑا) بن جاتا ہے، پھر اتنے ہی دنوں کے لیے گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم ہوتا ہے، وہ اس کا رزق، اجل (عمر یا موت)، عمل اور یہ کہ وہ خوش بخت ہو گا یا بدبخت، یہ سب لکھ دیتا ہے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ چنانچہ یقیناً تم میں سے کوئی اہل جنت والے عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور اس (جنت) کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، مگر اس سے پہلے جس طرح لکھا ہوا ہے اس کے مطابق دوزخیوں والے عمل شروع کر دیتا ہے اور دوزخ میں جا پڑتا ہے، اور بیشک تم میں سے کوئی دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے جو لکھا ہے اس کے مطابق وہ جنتیوں والا عمل کر لیتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر:4708)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انسان کے ہر فعل کے بارے میں تقدیر میں لکھا ہوا ہے، اسی طرح یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فلاں کی فلاں سے شادی ہوگی، لیکن ان سب کے باوجود انسان کا تقدیر کا سہارا لے کر بیٹھ جانا اور اپنے آپ کو مجبور محض خیال کرکے اسباب کو اختیار نہ کرنا، کسی بھی طرح شرعاً پسندیدہ عمل نہیں ہے اور نہ ہی یہ توکل اور بھروسہ ہے، بلکہ اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق اسباب کو اختیار کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالی نے دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے، جس میں ہر کام کے لیے بندے کو پہلے کسی سبب کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔
خلاصہ کلام:
بندہ اپنی جانب سے اسباب اختیار کرے، اس کے بعد اپنے معاملات کو اللہ تعالی کے سپرد کردے، لہذا اگر اس جملے "جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں" کا مطلب یہ ہو کہ اسباب کے درجے میں مناسب رشتہ تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے تو یہ مطلب درست نہیں ہے، لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہوکہ مناسب کوشش اور استخارہ وغیرہ کرنے کے بعد ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالی کا فیصلہ ہے اور تقدیر میں لکھا ہوا ہے تو یہ بات درست ہے، لہذا عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آسمانوں پر جوڑے بننے کے باوجود ہمیں مناسب رشتہ تلاش کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2652، 2044/4، ط: دار إحياء التراث العربی)
حدثني أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن عبد الله بن سرح، حدثنا ابن وهب، أخبرني أبو هانئ الخولاني، عن أبي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السماوات والأرض بخمسين ألف سنة، قال: وعرشه على الماء "
سنن أبی داؤد: (رقم الحدیث: 4708، 93/7، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)
حدَّثنا حفصُ بنُ عمر النَّمَرىُّ، حدَّثنا شعبةُ.وحدَّثنا محمدُ بنُ كثيرِ، أخبرنا سفيانُ -المعنى واحد، والإخبار في حديث سفيان- عن الأعمش، حدَّثنا زيدُ بنُ وهبٍ حدَّثنا عبدُ الله بنُ مسعودٍ قال: حدَّثنا رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم- وهو الصادِقُ المصدوقُ: "إنّ خَلقَ أحدِكُمُ يُجمَعُ في بَطنِ أُمِّه أربعين يوماً، ثم يكونُ عَلَقَةَ مِثْلَ ذلك، ثم يكونُ مُضغةَ مِثلَ ذلك، ثمِ يُبعَثُ إليه مَلَكٌ، فيُؤمَرُ باربعِ كلماتٍ: فيكتُبُ رِزقَه وأجَلَه وعَمَله، ثم يكتُبُ: شقي أو سعيدٌ، ثم يَنفُخُ فيه الروحَ، فإن أحدَكُم ليَعمَلُ بعَمَلِ أهلِ الجنةِ حتى ما يكونُ بينَه وبينها إلا ذِراعٌ، أو قِيدُ ذراعٍ، فيَسبِقُ عليه الكتابُ، فيعملُ بعملِ أهلِ النار، فيدخلُها، وإن أحدكم ليَعمَلُ بعملِ أهل النار حتى ما يكونَ بينه وبينها إلا ذراعٌ، أو قِيدُ ذِرَاعٍ، فيسبقُ عليه الكتابُ، فيعملُ بعمَلِ أهلِ الجنة فيدخُلُها"
شعب الإیمان للبیھقی: (رقم الحدیث: 1139، 405/2، ط: مکتبۃ الرشد)
اخبرنا أبو طاهر الفقيه، حدثنا علي بن حمشاد، حدثنا الحارث بن أبي أسامة، حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ، فذكره بمثل إسناد العلوي غير أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم لو توكلون على الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير تغدو خماصا، وتروح بطانا " قال الإمام أحمد رحمه الله تعالى: " وليس في هذا الحديث دلالة على القعود عن الكسب، بل فيه ما يدل على طلب الرزق؛ لأن الطير إذا غدت فإنما تغدو لطلب الرزق وإنما أراد - والله تعالى أعلم - لو توكلوا على الله تعالى في ذهابهم ومجيئهم وتصرفهم ورأوا أن الخير بيده ومن عنده لم ينصرفوا إلا سالمين غانمين كالطير تغدو خماصا، وتروح بطانا، لكنهم يعتمدون على قوتهم وجلدهم ويغشون ويكذبون، ولا ينصحون وهذا خلاف التوكل "
شرح العقائد: (ص: 216- 219، ط: مکتبۃ البشری)
وللعباد افعال اختیاریۃ یثابون بھا ان کانت طاعۃ ویعاقبون علیھا ان کا نت معصیۃ لا کمازعمت الجبریۃ انہ الفعل للعبد اصلا وان حرکاتہ بمنزلۃ حرکات الجمادات لاقدرۃ علیھا ولا قصد ولا اختیار ھذا باطل۔۔۔و تحقیقہ ان صرف العبد قدرتہ وارادتہ الی الفعل کسب و ایجاد اللہ تعالی الفعل عقیب ذلک خلق۔
منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر: (ص: 70، ط: مکتبۃ المدینہ)
(ولا یکون في الدنیا ولا في الآخرۃ شئ ) موجود حادث، في الأحوال جمیعھا(إلا بمشیتہ) مقرونا بإرادتہ، و( علمہ وقضائہ، ) حکمہ وأمرہ ،(وقدرہ ) بتقدیرہ بقدر قدرہ،( وکتبہ ) وکتابتہ(في اللوح المحفوظ) قبل ظھور أمرہ...ومجمل الأمرأن القدر وھو مایقع من العبد المقدر في الأزل من خیرہ، وشرہ، وحلوہ، ومرہ، کائن عنہ سبحانہ وتعالیٰ بخلقہ وإرادتہ ماشاء کان، ومالا، فلا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی