resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: حديث: "لا يَنْقُشْ أحدٌ عَلَى نَقْشِ خَاتَمِي هَذَا" (ميرى انگوٹھی کے نقش کى طرح کوئى دوسرا شخص اپنى انگوٹھی کے مہر کا نقش نہ بنوائے) اس ممانعت کے باوجود حضرت عثمان غنى رضی اللہ عنہ نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى مہر جیسا نقش اپنى انگوٹھی میں کندہ کروایا، مذکورہ روایات میں تطبیق (8339-No)

سوال: (۱) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فِي هَذَا الْخَبَرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا يَنْقُشْ أَحَدٌ عَلَى نَقْشِ خَاتَمِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ.(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4219)
(۲) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بِنِ فَارِسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا الْخَبَرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ عُثْمَانُ خَاتَمًا وَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ يَخْتِمُ بِهِ أَوْ يَتَخَتَّمُ بِهِ.
(حدیث نمبر: 4220)
محترم مفتی صاحب، کتب ِحدیث میں دو طرح کی روایات سامنے آتی ہیں، مندرجہ بالا حدیثوں میں سے پہلی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی پر موجود نقش جیسا نقش بنانے منع کیا ہے، جبکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے انگوٹھی گم ہونے کے بعد دوسری انگوٹھی بنوائی، اس پر محمد رسول اللہ نقش کرکے اس سے مہر لگاتے تھے، براہ کرم مذکورہ دونوں روایتوں میں تطبیق بیان فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ جب آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے عجم کے بادشاہوں کو دعوتى خطوط بھیجنے کا قصد فرمایا تو چونکہ عجم زعماء بغیر مہر ثبت شدہ کوئى خط قبول نہیں کرتے تھے، چنانچہ آپ ﷺ نے انگوٹھى کى شکل میں ایک مہر بنوائى اور اس پر"محمد رسول اللہ" کندہ کروایا، اس کى ترتیب یہ تھى کہ سب سے نچلى سطر میں "محمد"، اس سے اوپر والى سطر میں "رسول" اور سب سے اوپر "اللہ" لکھا تھا، اس طرح آپ اپنے خطوط میں اس مہر کو استعمال فرماتے تھے، کچھ صحابہ کرام نے آپ کى اتباعِ سنت میں یہى عبارت کندہ کروا لى تو آپ نے اس طرح کرنے سے منع فرما دیا، کیونکہ اس سے اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا اور مہر بنوانے کا مقصد حاصل نہ ہوتا، اس مصلحت کے پیش نظر آپ نے ممانعت فرما دى تھى کہ "لا يَنْقُشْ أحدٌ عَلَى نَقْشِ خَاتَمِي هَذَا" (ميرى انگوٹھی کی شکل میں موجود مہر کے نقش کى طرح کوئى دوسرا شخص اپنى مہر کا نقش نہ بنوائے)۔
نبیﷺ کے وصال کے بعد خلفاء راشدینؓ سے بھی اس انگوٹھی میں موجود مہر کا استعمال منقول ہے، خلفاءِ راشدین چونکہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے حکم ناموں میں یہ مہر استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ کى وفات کے بعد (بطورر تبرک) یہ انگوٹھی خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہى، ان کے بعد خلیفہ ثانى حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس رہى اور پھر ان کى وفات کے بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنى رضی اللہ عنہ کے پاس اکثر مدتِ خلافت تک رہى، بالآخر ایک دن حضرت عثمان غنى رضی اللہ عنہ ایک کنویں (جس کا نام" بئر اریس" ہے) کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کے ہاتھ سے (یا ان کے خادم کے ہاتھ سے) وہ مہر والی انگوٹھی اس کنویں میں گر گئی، اس کو تلاش کرنے کے لیے کنویں کا سارا پانى نکلوایا گیا، لیکن وہ انگوٹھى نہ مل سکى، پھرحضرت عثمان غنى رضى اللہ عنہ نےدوسرى انگوٹھی کی شکل میں مہر بنوائى اور اس میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى مہر جیسا نقش کندہ کروایا۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے ممانعت وارد ہے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آپ کی انگوٹھی میں موجود مہر کا نقش کیوں بنوایا؟ اس کا جواب محدثین عظام رحمہم اللہ نے دو طرح سے دیا ہے:
1- یہ ممانعت صرف آپ صلى اللہ علیہ وسلم کى حیات تک کے لیے تھى، کیونکہ آپ نے اس لیے یہ ممانعت فرمائی تھى کہ کسى دوسرے کى اسى طرح کى مہر سے اشتباہ پیدا ہو سکتا تھا، چونکہ آپ کى وفات کے بعد وہ اشتباہ پیدا ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے وہ انگوٹھى حضرات خلفاء راشدین کے استعمال میں رہى اور جب وہ انگوٹھى کنویں میں گر گئى تو حضرت عثمان غنى رضی اللہ عنہ نے جب مہر بنوائى تو اس میں وہی نقش کندہ کروا لیا۔
2- حضرات خلفاء راشدین کى اپنى الگ مہریں تھیں اور ان پر ہر خلیفہ راشد کا حکمت بھرا جملہ نقش تھا، جیسا کہ کتب تاریخ وسیر سے معلوم چلتا ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کى مہر میں " نعم القادر الله"(بہترين قدرت والا الله تعالى ہے) ، خلیفہ ثانى حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کى مہر میں "كفى بالموت واعظا يا عمر" ( نصیحت کے لیے موت کافى ہے، اے عمر!)، خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنى رضی اللہ عنہ کى مہر میں"آمنت بالذي خلق فسوى" (ميں اس ذات پر ایمان لایا جس نے پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک بنایا) اور خلیفہ رابع حضرت على کرم اللہ وجہہ کى مہر میں "لله الملك" (بادشاہى اللہ ہى کى ہے)، نقش کنندہ تھے، لہذا ان حضرات کے پاس جو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى مہر تھى، اسے یہ حضرات محض بطورِ تبرک استعمال فرماتے تھے۔
اسى تبرک کے متعلق ملا على قارى رحمہ اللہ "جمع الوسائل شرح الشمائل" میں فرماتے ہیں: بعض مشایخ کی رائے یہ ہے کہ نبى اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کى انگوٹھى میں کوئى راز مخفی تھا، جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کى انگوٹھى میں تھا، چنانچہ جب ان کى انگوٹھى گم ہوئی تو ان کى حکومت میں تنزلی محسوس کی جانے لگی۔ بالکل اسی طرح حضرت عثمان غنى رضی اللہ عنہ سے جب آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کى انگوٹھى گم ہوئی تو اس کے بعد حالات و معاملات نے رخ پھیرا، ان کے عہدِ حکومت میں باغىوں وبلوائیوں کی جماعت نے زور پکڑا اور تاروزِ قیامت مختلف فتنے و فسادات کا دروازہ کھل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :

سنن أبي داود: (باب ماجاء في اتخاذ الخاتم، رقم الحدیث: 4217، 88/4، ط: دار الرسالة العالمية)
عن ابن عمر-رضي الله عنهما-، قال: اتخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم خاتما من ذهب، وجعل فصّه مما يلي بطن كفه، ونقش فيه: "محمد رسول الله"، فاتخذ الناس خواتم الذهب، فلما رآهم قد اتخذوها رمى به، وقال: «لا ألبسه أبدا»، ثم اتخذ خاتما من فضة، نقش فيه: "محمد رسول الله"، ثم لبس الخاتم بعده أبو بكر، ثم لبسه بعد أبي بكر عمر، ثم لبسه بعده عثمان، حتى وقع في بئر أريس " ۔

شرح معاني الآثار للطحاوي: (کتاب الکراهة، باب نقش الخواتیم، 264/4، رقم الحدیث: 6794 ،6795، ط: عالم الكتب)
عن حيان الصائغ قال : كان نقش خاتم أبي بكر الصديق-رضي الله عنه-: "نعم القادر الله".
عن أبي جعفر قال : كان نقش خاتم علي -رضي الله عنه-: "لله الملك".

المفهم لما أشکل من تلخیص: ( کتاب اللباس، باب لبس الخاتم الورق، 411/5، ط: دار ابن كثير، دمشق، بيروت)
"وكون الخلفاء تداولوا خاتم النبي - صلى الله عليه وسلم -: إنما كان ذلك تبركًا بآثار النبي - صلى الله عليه وسلم - واقتداء به، واستصحابًا لحاله، حتى كأنَّه حي معهم، ولم يزل أمرهم مستقيمًا متفقًا عليه في المدَّة التي كان ذلك الخاتم فيهم۔ فلما فقد اختلف الناس على عثمان - رضي الله عنه - وطرأ من الفتن ما هو معروف، ولا يزال الهَرج إلى يوم القيامة".

البداية: (133/7، ط: دار الفكر)
وكان نقش خاتمه: (أي عمر-رضي الله عنه-): "كفى بالموت واعظا يا عمر"۔

سير أعلام النبلاء: (149/1، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عمرو بن عثمان، قال: كان نقش خاتم عثمان-رضي الله عنه-: "آمنت بالذي خلق فسوى".

عمدة القاري: (باب دعاء النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإسلام والنبوة، 210/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
وقال شيخنا، رحمه الله: نهيه- صلى الله عليه وسلم-، أن ينقش أحد على نقش خاتمه خاص بحياته، ويدل عليه لبس الخلفاء الخاتم بعده، ثم تجديد عثمان، رضي الله تعالى عنه، خاتما آخر بعد فقد ذلك الخاتم في بئر أريس، ونقش عليه ذلك النقش.

جمع الوسائل في شرح الشمائل: (باب ماجاء في ذکر خاتم رسول الله ﷺ، 147/1، ط: المطبعة الشرفية، مصر)
قال النووي: وسبب النهي أنه - صلى الله عليه وسلم - إنما نقش على خاتمه هذا القول، ليختم به كتبه إلى الملوك، فلو نقش غيره مثله لدخلت المفسدة وحصل الخلل اه . وإنما نهاهم عنه؛ لأنه علم أمما سيتابعونه في هذا، كما هي عادتهم في كمال المتابعة، فأجازهم باتخاذ الخاتم على ما هو المفهوم من ضمن النهي، ونهاهم عن مجرد النقش الخاص؛ لما يفوته من الحكمة والمصلحة العامة۔


و أیضا فیه: (147/1، ط: المطبعة الشرفية)
قال الشيخ: نسبة السقوط إلى أحدهما حقيقة، وإلى الآخر مجازية من قبيل الإسناد إلى السبب، فإن عثمان-رضي الله عنه- طلب الخاتم من "معيقيب"، فختم به شيئا، واستمر في يده وهو يتفكر في شيء يعبث به فسقط في البئر، أو ردّه إليه فسقط منه، والأول هو الأكثر، قال: وقد أخرج النسائي من طريق المغيرة بن زياد، عن نافع هذا الحديث، وقال فيه: وكان في يد عثمان-رضي الله عنه- ست سنين من عمله، فلما كثرت عليه غلبة الظن، هذا غاية ما يجمع به بين الروايات۔

و أیضا فیه: (147/1، ط: المطبعة الشرفية)
قال بعض العلماء: كان في خاتمه -صلى الله عليه وسلم- شيء من الأسرار، كما كان في خاتم سليمان -عليه السلام-؛ لأن سليمان لما فقد خاتمه ذهب ملكه، وعثمان لما فقد خاتم النبي -صلى الله عليه وسلم- انتقض عليه الأمر، وخرج عليه الخارجون، وكان ذلك مبدأ الفتنة الدنيوية والأخروية التي أفضت إلى قتله، واتصلت إلى آخر الزمان۔

والله تعالى أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

hadis : "لا يَنْقُشْ أحدٌ عَلَى نَقْشِ خَاتَمِي هَذَا" (meri mohor ke / kay naqsh ki tarha koi dosra shakhs apni mohor ka naqsh na banwae) is ke / kay bawajood hazrat usman razi Allahho anho ne / nay aap sallallaho alihe wasalam ki mohor jesa naqsh apni mohor me / mein kanda / kandah karwaya,in dono bato ke / kay taaruz ka hokum / hokom.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees